• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

پاکستان میں جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا پبلک ریلوے نیٹ ورک موجود

شائع May 8, 2022
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سڑکوں کا خاصا مضبوط نظام موجود ہے— فوٹو: ڈان
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سڑکوں کا خاصا مضبوط نظام موجود ہے— فوٹو: ڈان

ورلڈ بینک کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا پبلک ریلوے نیٹ ورک ہے جو کہ تقریباً 80 ہزار کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2019 کے آخر سے پاکستان کے پاس 7 ہزار 700 کلومیٹر آپریٹنگ نیٹ ورک ہے جس کے بعد بنگلہ دیش کے پاس تقریباً 3 ہزار کلومیٹر اور سری لنکا میں 1500 کلومیٹر ہے، رپورٹ کے کے مطابق بھارتی نیٹ ورک 67 ہزار کلومیٹر کے ساتھ اب تک کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔

جنوبی ایشیا میں موجودہ ریلوے نیٹ ورک 4 ممالک پر مشتمل ہے جس میں بھارت، پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش شامل ہیں، 1947 میں ہندوستان کی آزادی تک جنوبی ایشیا کے لیے 4 میں سے 3 ریلویز ایک ہی نظام کا حصہ تھے، اس کے بعد سے وہ سبھی ریلوے کی وزارت کے زیر انتظام سرکاری محکموں کے طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، ترکی کے درمیان تجارتی ٹرین کے دوبارہ آغاز کا امکان

پاکستان اور سری لنکا میں اب مکمل آپریٹنگ نیٹ ورک ایک ہزار 676 ملی میٹر ہے لیکن بنگلہ دیش اور بھارت دونوں کے پاس ابھی بھی تھوڑی تعداد میں میٹر گیج ریل موجود ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش ریلوے دونوں کارپوریشنز ہیں، تاہم دونوں ممالک میں ریلوے کے وزیر اور حکومت اس کے انتظام اور فنڈنگ میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ریلوے کو آپریشنز اور سرمائے کے اخراجات کے لیے حکومتی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی پورٹ کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے کیلئے مال بردار ٹرین سروس کا آغاز

چاروں ممالک میں مسافروں کی سروسز بنیادی اسٹرکچر کو برقرار رکھنے کے لیے درکار اخراجات میں بہت کم حصہ ڈالتی ہیں کیونکہ حکومتی پالیسی کے تحت مسافروں کے کرایوں کو کئی برسوں سے کم رکھا گیا ہے اور مالیاتی فرق کو مال بردار سروسز سے پورا کرنا پڑتا ہے۔

مجموعی طور پر چار جنوبی ایشیائی ریلویز سالانہ تقریباً 7 کھرب 50 ارب نیٹ ٹن-کلومیٹر مال بردار اور 1200 ارب مسافر-کلومیٹر سے زائد لے جاتے ہیں۔

جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک سے کوئی لنک جڑا ہوا نہیں ہے، پاکستان اور ایران کے درمیان صرف ایک غیر معیاری لنک موجود ہے جس پر بہت کم آمدورفت ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ریلوے کے 'فریٹ ریونیو' میں بہتری کیلئے سابق سی ای او کی سفارشات

پاکستان اور بنگلہ دیش میں مال برداری کے ذریعے صرف محدود تعداد میں سامان کی ترسیل کی جاتی ہے جبکہ سری لنکا میں یہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے تمام پاور اسٹیشنز ساحل پر واقع ہیں اور سمندر کے ذریعے یا مختصر فاصلے کے نقل و حمل کے ذریعے انہیں سپلائی فراہم کی جاتی ہے، بنگلہ دیش کا واحد علاقہ جو سمندر سے مناسب فاصلے پر واقع ہے وہ تقریباً مکمل زرعی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سڑکوں کا خاصا مضبوط نظام موجود ہے، ریلوے انتظامیہ کے لیے بندرگاہ سے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر مال برداری کے اہم علاقے کے باوجود ایک پرکشش سروس فراہم کرنا بڑا چیلنج ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر شہری مسافر سروس کو سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بسوں سے قیمت اور سروس فریکوئنسی کے لحاظ سے سخت مقابلے کا سامنا ہے جبکہ سفر کے وقت کے لحاظ سے اسے بھارت اور پاکستان میں ہوائی جہاز سے مقابلے کا سامنا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024