میڈیا کی آزادی کی فہرست میں پاکستان 12 درجے تنزلی کا شکار
پیرس میں قائم میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے 3 مئی کو عالمی یوم صحافت کے موقع پر اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق میڈیا کی آزادی کی عالمی فہرست میں پاکستان 12 درجے تنزلی کے بعد 157ویں نمبر پر آگیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آر ایس ایف نامی میڈیا ایڈووکیسی گروپ کی جانب سے رواں ہفتے جاری کردہ '2022 فریڈم انڈیکس' نے پورے جنوبی ایشیا میں بھی عمومی کمی کو ظاہر کیا ہے۔
180 ممالک کی فہرست میں پاکستان 2021 کے انڈیکس میں 145ویں نمبر پر تھا اور 2022 میں تنزلی کا شکار ہوکر 157ویں نمبر پر آگیا، بھارت 8 درجے تنزلی کا شکار ہوکر 150ویں نمبر پر آگیا جو گزشتہ سال 142ویں نمبر پر تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان پریس فاؤنڈیشن کا کورونا وائرس کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے تحفظ کا مطالبہ
نیپال کے علاوہ تمام جنوبی ایشیائی ممالک نے آر ایس ایف 2022 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا، رواں سال سری لنکا 127ویں، بنگلہ دیش 152ویں اور میانمار 140ویں نمبر پر ہے، تاہم نیپال نے عالمی درجہ بندی میں 30 پوائنٹس کا اضافہ کیا جو گزشتہ سال کے 106ویں نمبر سے 76 ویں پوزیشن پر چلا گیا۔
واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس دن ایک خصوصی نیوز بریفنگ کا انعقاد کیا جس میں عالمی برادری کو یاد دلایا گیا کہ ایک متحرک آزاد میڈیا کسی بھی صحت مند جمہوریت کا سنگ بنیاد ہے۔
بریفنگ میں ایک سوال کے جواب میں چیف امریکی سفارت کار نے پاکستان میں میڈیا کی حالت پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: میڈیا انڈسٹری کی نمائندہ تنظیموں نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کردیا
انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ اس معاملے کو اٹھاتے ہیں، یہ انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹس کا بھی ایک اہم جز ہے جو ہم پیش کرتے ہیں، یقیناً ہم پاکستان میں بڑے پیمانے پر میڈیا آؤٹ لیٹس اور سول سوسائٹی پر نمایاں پابندیوں سے آگاہ ہیں۔
انٹونی بلنکن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ایک متحرک آزاد میڈیا اور باخبر شہری پاکستان سمیت کسی بھی قوم اور اس کے مستقبل کے لیے اہم ہیں، انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان میں ہم اس حوالے سے جو طرز عمل دیکھتے ہیں وہ اظہار رائے کی آزادی کو مجروح کرتا ہے، وہ پرامن احتجاج کو نقصان پہنچاتا ہے، وہ پاکستان کے تاثر اور ترقی کی صلاحیت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
آر ایس ایف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1947 کے بعد سے پاکستان سول سوسائٹی کی جانب سے آزادی صحافت کی جدوجہد اور سیاسی اور فوجی اشرافیہ کی جانب سے میڈیا پر کنٹرول کی کوششوں کے درمیان کشمکش کا شکار ہے۔
میڈیا کا منظرنامہ
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2002 کے بعد سے پاکستان میں میڈیا کا منظرنامہ انتہائی متنوع ہو چکا ہے اور ملک میں اب 100 کے قریب ٹی وی چینلز اور 200 سے زیادہ ریڈیو اسٹیشنز ہیں جو نسبتاً کم شرح خواندگی والی آبادی کو خبریں اور معلومات فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں پاکستان کا 139واں نمبر
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں انگریزی پریس کو آزادی کی ایک مضبوط روایت حاصل ہے اور 2 سرکردہ میڈیا گروپس 'جنگ اور ڈان' اس کی نمایاں مثال ہیں۔
سیاسی تناظر
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی طاقت میں تبدیلی کے باوجود یہ روایت بدستور برقرار رہتی ہے کہ حزب اختلاف میں سیاسی جماعتیں آزادی صحافت کی حمایت کرتی ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے خود اسے محدود کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ایک سال میں 7 صحافی قتل کردیے گئے، رپورٹ
رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ سیاست میں فوج اور انٹیلی جنس ایجنسی کی مداخلت کی کوریج صحافیوں کے لیے ممنوع ہوچکی ہے۔
مبہم قوانین
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ صحافت کے تحفظ کی آڑ میں پاکستانی قانون، حکومت اور مسلح افواج پر کسی بھی قسم کی تنقید کو سنسر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں 5 برس کے دوران 33 صحافی قتل کردیے گئے، رپورٹ
آر ایس ایف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ان مبہم قوانین کے نتیجے میں حکام کی جانب سے متعین حدود کو عبور کرنے والے صحافیوں کو بھاری انتظامی اور مجرمانہ سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معاشی تناظر
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ نجی ملکیت والے میڈیا (خاص طور پر مقامی میڈیا) کے ادارے اپنی فنڈنگ کے لیے سرکاری اشتہارات اور قانونی اعلانات پر انحصار کرتے ہیں جس کے نتیجے میں صوبائی اور قومی سطح پر اطلاعات کی وزارتوں کو ادارتی پالیسی پر اثر انداز ہونے کے لیے اشتہارات واپس لینے کی دھمکیاں دینے کا موقع ملتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آزادی اظہار پر پابندیاں پاکستان کے تشخص کو مجروح کرتی ہیں، امریکا
جو میڈیا آؤٹ لیٹس حدود کو عبور کرنے کی ہمت کرتے ہیں انہیں ہر طرح کے مالی انتقام کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ امر سیلف سنسرشپ کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے کہ جب میڈیا اداروں کو مالی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو صحافیوں کی تنخواہوں میں اکثر کٹوتی کی جاتی ہے۔