گلیشیئرز کے پگھلاؤ سے گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا میں سیلاب کی وارننگ جاری
وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمن نے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز (پی ڈی ایم اے) اور محکمہ داخلہ کو متنبہ کیا ہے کہ علاقائی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں برفانی جھیلوں کے ٹوٹنے اور اچانک سیلاب کا امکان ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک مشاورتی نوٹ میں وزارت موسمیاتی تبدیلی نے متعلقہ اداروں کو ایک باضابطہ انتباہ جاری کیا، جس میں ان کی توجہ گلگت بلتستان اور خیبر پختون خوا کے علاقوں میں برفانی جھیلوں کے ٹوٹنے اور اچانک سیلاب کے ممکنہ واقعات کی جانب مبذول کراتے ہوئے مؤثر اور بروقت احتیاطی اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی۔
برفانی جھیلوں کا ٹوٹنا اچانک ہونے والے واقعات ہیں جن سے لاکھوں کیوبک میٹر پانی اور ملبہ جمع ہوسکتا ہے جس سے دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں جانی، مالی اور معاشی نقصان ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی علاقہ جات میں سیلاب کی وارننگ جاری
شیری رحمٰن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا 'رواں سال یہ کئی دہائیوں میں پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان میں مارچ کا مہینہ موسم بہار کے بغیر گزرا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان کے شمالی پہاڑی سلسلوں ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم میں گلیشیئرز درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں اور گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں کل 3 ہزار 44 برفانی جھیلیں تیار ہو چکی ہیں، ان برفانی جھیلوں میں سے اندازاً 33 جھیلیں کے ٹوٹنے کا خطرہ موجود ہے۔
گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کے علاقوں میں 71 لاکھ سے زائد لوگ غیر محفوظ ہیں، جہاں بالترتیب 26.7 فیصد اور 22 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
مزید پڑھیں: تمام ریڈارز ناکارہ، سیلاب کی وارننگ کون دے گا؟
موجودہ اقدامات پہلے سے وارننگ سسٹمز، بہتر انفرااسٹرکچر اور کمیونٹی پر مبنی ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ کے ذریعے جھیلوں کے ٹوٹنے کے خطرات کے لیے تیاری اور ان کو کم کرنے میں مدد کرنے کے لیے کیے گئے ہیں، تاہم وزارت موسمیاتی تبدیلی نے خبردار کیا کہ اس حوالے سے جاری کردہ مزید ہدایات پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔
نیز موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل نے اپنی چھٹی تشخیصی رپورٹ میں کہا کہ اس صدی میں جنوبی ایشیا میں ہیٹ ویوز اور مرطوب گرمی کا دباؤ زیادہ شدید اور بار بار ہوگا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ گرمی کی لہریں ماضی کی نسبت زیادہ متواتر اور زیادہ شدید ہیں اور زیادہ جلدی شروع ہو رہی ہیں، گرمی کی لہریں اپریل میں ہوتی ہیں لیکن یہ عمومی نہیں ہیں، عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ قومی درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم ہوں گے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا: بارشوں، سیلابی صورتحال کے باعث مزید 13 افراد جاں بحق، درجنوں زخمی
وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن کے مطابق یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ پاکستان میں درجہ حرارت اوسط درجہ حرارت سے 6 سے 8 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے۔
انہوں نے میٹ رپورٹس کا حوالہ دیا جس میں مارچ کو 1961 کے بعد سے گرم ترین مہینہ قرار دیا گیا، اس کے علاوہ اس موسم میں بارش گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 62 فیصد کم رہی۔
ڈبلیو ایم او نے کہا کہ مون سون سے پہلے بھارت اور پاکستان دونوں ممالک میں باقاعدگی سے خاص طور پر مئی میں بہت زیادہ درجہ حرارت رہتا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں شدید گرمی کی وجہ صرف اور صرف موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دینا قبل از وقت ہے حالانکہ یہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی کے عین مطابق ہے۔