چینی باشندوں پر حملہ کرنے والے ملزمان کون ہیں؟
کالعدم انتہاپسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کراچی میں چینی باشندوں پر ہونے والے خونی حملے کی ذمہ داری قبول کی، یہ تنظیم بلوچستان میں پاکستانی ریاست کے خلاف مہم چلاتی ہے۔
خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق بی ایل اے کا مقصد بلوچستان کی مکمل آزادی ہے، جہاں دہائیوں سے کشیدگی ہے جس کے بارے میں انتہاپسندوں کا مؤقف ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال خطے کا استحصال کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خودکش دھماکے کا مقدمہ درج کرلیا گیا
بلوچستان کی سرحد شمال میں افغانستان سے ملتی ہے، مغربی میں ایران اور بحیرہ عرب پر طویل ساحلی پٹی ہے، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ گیس اور دیگر قدرتی وسائل سے مالامال ہے اور کئی ذخائر تاحال دریافت نہیں ہوپائے۔
صوبہ سونا سمیت کئی قیمتی دھاتوں سے لدا ہوا ہے جہاں حالیہ برسوں ان قمتی دھاتوں کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو بی ایل اے نشانہ بناتی رہی ہے لیکن حالیہ برسوں میں چینی باشندوں کو بھی نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔
انتہاپسند گروپ کا مطالبہ ہے کہ تمام پاکستانی سیکیورٹی فورسز بلوچستان سے واپس چلی جائیں اور ایک ‘بین الاقوامی ضمانت کار’ کی موجودگی میں مذاکرات کی تجویز دے رہے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے گروپ تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو معاشی ترقی سے الگ کیے جانے اور سختیوں سے مایوس ہیں۔
اس وقت موجود بی ایل اے کی قیادت بااثر بلوچ خاندان سے تعلق رکھنے والے بالاچ مری کر رہے تھے، سیکیورٹی عہدیداروں نے کہا تھا کہ بالاچ مری کو 2007 میں افغانستان میں مارا گیا تھا، جہاں انہوں نے ایک بیس اور ٹھکانا بنا رکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: جامعہ کراچی میں خود کش دھماکا، تین چینی باشندوں سمیت 4 افراد جاں بحق
بالاچ مری کے مارے جانے کے بعد بی ایل اے ابتدائی طور پر کمزور ہوئی تھی تاہم بعد میں بی ایل اے نے حملوں میں تیزی دکھائی تھی اور خاص کر گزشتہ برس مزید حملے کیے۔
گروپ کا کہنا ہے کہ اس وقت گروپ کی قیادت بشیر زیب بلوچ کر رہا ہے، جو اس تنظیم کا مبینہ کمانڈر انچیف ہیں اور ایک غیرمعروف نام ہے۔
بی ایل اے کے اکثر حملے بلوچستان یا کراچی میں ہوئے، بی ایل اے نے 2020 میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حملے اور 2018 میں کراچی میں قائم چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کرلی تھی۔
مجید بریگیڈ کیا ہے؟
مجید بریگیڈ 2011 میں قائم ہوئی تھی، جو بی ایل اے کا خطرناک گوریلا سیل ہے، یہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے گارڈ کے منسوب ہے جو ان پر قاتلانہ حملے کی کوشش کے دوران مارا گیا تھا۔
اس سیل کی افغانستان میں موجودگی کے دستاویزی ثبوت ہیں اور یہاں تک کہ بھارتی میڈیا نے بھی رپورٹ کیا تھا۔
مزیدپڑھیں: چینی شہریوں کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے، دھماکے میں ملوث عناصر کو قیمت چکانا ہو گی، چین
رپورٹس میں بتایا جاتا ہے کہ اس گروپ کی مبینہ طور پر پاک-ایران سرحد پر پناہ گاہیں موجود ہیں۔
یہ نام نہاد بریگیڈ بی ایل اے کا فدائی اسکواڈ ہے، جو اکثر سیکیورٹی فورسز اور پاکستان میں چینی مفادات کو نشانہ بناتا ہے، اسی گروپ نے منگل کو کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں ہوئے خودکش حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
بی ایل اے نے رواں برس کئی حملے کیے ہیں، جس میں بلوچستان کے اضلاع نوشکی اور پنجگور میں فوجی کیمپس پر حملے بھی شامل ہیں، جہاں سیکیورٹی فورسز کے اہلکار کئی دنوں تک لڑائی میں مصروف رہے تھے۔
نوشکی اور پنجگور حملوں کے بعد کلیرئنس کارروائی میں 20 دہشت گرد مارے گئے تھے اور پاک فوج کے میڈیا ونگ نے بیان میں بتایا تھا کہ اس دوران 9 سیکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے۔
جامعہ کراچی میں حملہ کرنے والا کون تھا؟
جامعہ کراچی میں منگل کو ہوئے حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک برقع پوش خاتون کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے دروازے کے باہر کھڑی ہے۔
خاتون اس وقت خود کو اڑادیتی ہےجب چینی باشندوں کو لے کر آنے والے وین انسٹی ٹیوٹ کے دروازے کے قریب پہنچتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جامعہ کراچی دھماکے کے بعد وفاق، سندھ سیکیورٹی آڈٹ کیلئے تیار
محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے سینئر عہدیدار راجا عمر خطاب خان نے بتایا تھا کہ خودکش حملہ آور کی شناخت شاری عرف بریماش کے نام سے ہوئی، وہ 1991 میں تربت میں پیدا ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خودکش حملہ آور شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں تھیں اور ان کا شوہر کیچ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہیبتان جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں صحت عامہ کا کورس کر رہا تھا اور پہلے سیمسٹر کا طالب علم تھا۔
راجا عمرخطاب نے کہا کہ وہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے قریب رہتا تھا جبکہ ان کی اہلیہ گلستان جوہر میں اپنے دو بچوں کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔
انہوں نے کہا کہ خودکش حملے سے ایک ہفتہ قبل گلستان جوہر سے چلے گئے جبکہ خود کش حملہ آور کے شوہر کا مقام بھی نامعلوم ہے، تاہم ان کے شوہر اور دیگر مجرموں کی تلاش کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
سی ٹی ڈی عہدیدار نے واضح کیا کہ خود کش حملہ آور جامعہ کراچی کی طالبہ نہیں تھی جبکہ انہوں نے اپنی تعلیم بلوچستان سے حاصل کی اور رپورٹ کے مطابق تربت میں اسکول ٹیچر اور تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
راجا عمر خطاب نے کہا کہ کالعدم بی ایل اے نے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں حملہ آور کے بارے میں تفصیلات جاری کی ہیں۔
ڈان ڈاٹ کام کو شاری کے چچا غنی پرواز نے بتایا کہ وہ کیچ میں انتہائی تعلیم یافتہ اور مالی طور پر مستحکم خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان کے کئی افراد سرکاری ملازمت کر رہے ہیں، ان کے والد محمد حیات تربیت یونیورسٹی سے بطور رجسٹرار ریٹائر ہوئے جبکہ خود غنی پرواز ریٹائرڈ پروفیسر اور مصنف ہیں۔
تعلیمی اور پروفیشنل ریکارڈ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ شاری نے 2014 میں ایجوکیشن میں گریجویشن کی، 2018 میں ایجوکیشن میں ماسٹر کیا اور بلوچستان یونیورسٹی سے ذولوجی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی تربت کیمپس سے ایم فل کیا تھا۔
غنی پرواز نے بتایا کہ شاری تربت میں ایک سرکاری اسکول میں سائنس پڑھا رہی تھیں۔