• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

وزیر خزانہ نے پیٹرول 21 روپے فی لیٹر مہنگا ہونے کا عندیہ دے دیا

شائع April 26, 2022
آئی ایم ایف ساتویں جائزے کو مکمل اور پالیسیوں پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے مئی میں ایک فیلڈ مشن پاکستان بھیجے گا — فائل فوٹو: فیس بُک
آئی ایم ایف ساتویں جائزے کو مکمل اور پالیسیوں پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے مئی میں ایک فیلڈ مشن پاکستان بھیجے گا — فائل فوٹو: فیس بُک

وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے پر بات چیت کرنے کے بعد پیر کو پاکستان واپس آگئے جہاں انہوں نے پیٹرولیم مصنوعات 21 روپے فی لیٹر مہنگی ہونے کا عندیہ دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بات چیت کے بعد جاری ہونے والے آئی ایم ایف کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ حکومت کو ایسی سہولیات سے لیس نہیں کرتا جو انہیں ان مشکلات حالات سے نکلنے میں مدد فراہم کر سکے جنہیں مفتاح اسمٰعیل نے پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے بچھائی گئی ’بارودی سرنگیں‘ قرار دیا ہے، لہٰذا عوام کو ایندھن کی سبسڈی واپس لینے کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف 'قرض پروگرام' میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ کرنے پر رضامند

آئی ایم ایف نے کہا کہ ہم نے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کے تحت پاکستان کی اقتصادی پیش رفت اور پالیسیوں پر وزیر خزانہ کے ساتھ بہت نتیجہ خیز ملاقاتیں کیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اتفاق کیا کہ غیر فنڈ شدہ سبسڈیز کو واپس لینے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے جس نے 7ویں جائزے کے لیے بات چیت کو سست روی کا شکار کر دیا ہے۔

مفتاح اسمٰعیل نے ایک ٹوئٹ میں آئی ایم ایف کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ فنڈ کی انتظامیہ اور عملے کا پاکستان کے لیے مالی طور پر ذمہ دار اقتصادی ترقی کی حکمت عملی کو بحال کرنے میں تعاون پر شکر گزار ہیں۔

2019 میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 6 ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے مقرر کردہ اصلاحات کی رفتار سے متعلق خدشات نے ادائیگیوں میں تاخیر کی ہے حالانکہ اس رقم کا نصف ادا کیا جاچکا ہے۔

آئی ایم ایف نے پروگرام کا چھٹا جائزہ فروری میں مکمل کیا جس کی وجہ سے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی امداد دی گئی، پاکستان نے آئی ایم ایف سے اپنے بیل آؤٹ پیکج کو بقیہ 3 ارب ڈالر سے بڑھا کر 5 ارب ڈالر کرنے کی درخواست کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف سے کیے جانے والے تمام معاہدے نبھائیں گے، مفتاح اسمٰعیل

آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان نے موجودہ چیلنجز سے نمٹنے اور پروگرام کے اہداف کو حاصل کرنے کے اپنے عزائم کے طور پر جون 2023 تک قرض کے انتظامات میں توسیع کی درخواست کی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ آئی ایم ایف ساتویں ای ایف ایف جائزے کو مکمل کرنے کے لیے پالیسیوں پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے مئی میں ایک فیلڈ مشن پاکستان بھیجے گا۔

اتوار کی سہ پہر وزیر خزانہ نے واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ پاکستان کی تجویز پر تکنیکی سطح پر بات چیت منگل سے شروع ہوگی۔

مفتاح اسمٰعیل نے حکومت کو موسم گرما میں درپیش دو بڑے مسائل کی طرف بھی اشارہ کیا جن میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ اور پاور پلانٹس کو چلانے کے لیے درکار ایندھن خریدنے میں ناکامی کے نتیجے میں ہونے والی خوفناک لوڈشیڈنگ شامل ہے۔

جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ لوگوں کو اس موسم گرما میں 6 سے 12 گھنٹے طویل لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو مفتاح اسمٰعیل نے صرف اتنا کہا کہ حکومت اس سے بچنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے یہ عندیہ دیا تھا کہ پیٹرول پر 21 روپے فی لیٹر سبسڈی واپس لینے کے ساتھ ساتھ حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ بھی کر سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے ساتھ ساتویں جائزے پر جلد معاہدے کے منتظر

اگلے انتخابات ایک سال بعد ہونے والے ہیں، حکمران جماعت کو لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے بعد ووٹ مانگنے کے ناخوشگوار کام کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستانی معیشت پر ایک گفتگو میں پرنسٹن کے ایک معروف ماہر اقتصادیات عاطف میاں نے نئی حکومت کو درپیش کچھ مسائل پر روشنی ڈالی۔

اس میں سرفہرست 18 سے 20 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے جس کا سامنا پاکستان کو جون میں مالی سال کے اختتام تک کرنا پڑے گا۔

عاطف میاں نے دلیل دی کہ اس طرح کے بڑے خسارے تیزی سے قدر میں کمی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ وہ درآمدات کو زیادہ مہنگی بناتے ہیں اور افراط زر میں اضافہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خسارہ اسٹیٹ بینک کو مقامی سطح پر شرح سود بڑھانے پر بھی مجبور کرتا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت سکڑ جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی حکومت نے 45 ماہ میں 49.23 ارب ڈالر کا قرض لیا

عاطف میاں نے نوٹ کیا کہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ ​​حکومت کو بھی اپنے اقتدار کے آخری سال میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم، انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستانی معیشت اشرافیہ کے زیر قبضہ ہے جہاں درآمدات کی مقدار برآمدات سے دوگنی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024