وفاقی کابینہ کا اعلان آج ہونے کا امکان
ایک ہفتے کی تاخیر کے بعد حکومت آج (پیر) اس غیر یقینی صورتحال کے درمیان وفاقی کابینہ تشکیل دے رہی ہے کہ کیا جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) اس کا حصہ بنے گی یا تقسیم کے بارے میں ’اختلاف‘ سے پرہیز کرے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اتوار کو وزیر اعظم شہباز شریف نے حکمران اتحادی جماعتوں سے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے وفود سے ملاقات کی۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے حکمران اتحاد میں ’ضامن‘ ہونے کے ناطے وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری کا نئی حکومت میں وزارتیں نہ لینے کا اشارہ
مریم اورنگزیب، جو ممکنہ طور پر وزیر اطلاعات بن سکتی ہیں، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’وفاقی کابینہ کے ارکان کل (پیر) حلف اٹھا رہے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کو 14 وزارتیں ملیں گی، اس کے بعد پی پی پی کو 11 وزارتیں ملیں گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ تمام اتحادی جماعتوں بشمول جے یو آئی (ف) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو کابینہ میں جگہ دی جارہی ہے۔
مریم اورنگزیب نے بتایا کہ کابینہ کی تشکیل سے متعلق اتحادی جماعتوں کی مشترکہ کمیٹی کا طویل اجلاس اتوار کو ہوا جس میں محکموں اور اہم عہدوں کی تقسیم سے متعلق جماعتوں کی شکایات کو دور کیا گیا۔
مزید پڑھیں: بلاول کے وزیر خارجہ بننے کے معاملے پر پیپلز پارٹی تقسیم
ترجمان کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس دفاع، خزانہ، داخلہ، قانون و انصاف، ریلوے، اطلاعات، توانائی، منصوبہ بندی، مواصلات وغیرہ کی وزارتیں ہوں گی۔
اس سے قبل مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنااللہ نے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں کی مشترکہ کمیٹی نے نئی کابینہ کی تشکیل کو حتمی شکل دے دی ہے، جس میں تقریباً تمام جماعتوں کو جگہ دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لیے وزارت خارجہ مانگی ہے لیکن یہ ابھی تک غیر یقینی ہے کہ کیا بلاول، شہباز شریف کی کابینہ میں شامل ہوں گے یا نہیں۔
البتہ حکومت کے ایک ذریعے نے ڈان کو بتایا کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن وفاقی کابینہ میں شامل نہیں ہو رہے، تاہم انہوں نے یقین دلایا ہے کہ وہ حکومتی اتحادی رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق وزیراعظم عمران خان سمیت کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جے یو آئی (ف) نے صدر کے عہدے کا مطالبہ کیا تھا اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور آزاد رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو ایک ایک وزارت دینے پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے آصف علی زرداری سے ناراضی کا اظہار کیا اور سوال کیا کہ ان جماعتوں یا افراد کو دو وزارتیں کیوں دی گئیں جنہوں نے جے یو آئی (ف) کے خلاف الیکشن لڑا تھا اور وہ آئندہ انتخابات میں بھی ان کی پارٹی کو نقصان پہنچائیں گے۔
تاہم آصف علی زرداری نے واضح کیا کہ وہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے کیونکہ وہ اس اتحاد میں ایک ’ضامن‘ تھے جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خلاف بنایا گیا تھا جس نے کامیابی سے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے سابق وزیراعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹا دیا۔
آصف علی زرداری نے کہا کہ ان کی پارٹی اس وقت تک وزارتیں نہیں لینا چاہتی جب تک تمام اتحادی جماعتوں کو جگہ نہ مل جائے۔
مزید پڑھیں: 'میری ذاتی خواہش ہے کہ کابینہ کا حصہ نہ بنوں'
دریں اثنا پیپلز پارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے آصف زرداری کو تمام اختیارات دے دیے ہیں کہ وہ کسی بھی پارٹی کو اس کے مقررہ حصے کے مطابق وزارتیں تقسیم کر سکتے ہیں۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کو بھی کابینہ میں شامل ہونے کو کہا تھا اور امید کی جارہی تھی کہ پارٹی کو 7 وزارتیں ملیں گی۔
ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ اتحاد میں یہ بھی طے پایا ہے کہ پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے اگلے چیئرمین ہوں گے۔
نئی کابینہ کے ممکنہ وزرا میں بلاول بھٹو زرداری، مریم اورنگزیب، خواجہ آصف، مفتاح اسمٰعیل، زاہد حامد، احسن اقبال، رانا ثنااللہ، رانا تنویر، شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، حنا ربانی کھر، شازیہ مری و دیگر شامل ہیں۔