• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب

شائع April 16, 2022
حمزہ شہباز پنجاب کے 21 ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے—فوٹو: حنا پرویز بٹ ٹوئٹر
حمزہ شہباز پنجاب کے 21 ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے—فوٹو: حنا پرویز بٹ ٹوئٹر
ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری اراکین سے مخاطب ہونے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کررہے ہیں—فوٹو : ڈان نیوز
ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری اراکین سے مخاطب ہونے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کررہے ہیں—فوٹو : ڈان نیوز
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وزیراعلیٰ کا انتخاب آج ہونا تھا—فوٹو : ڈان نیوز
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وزیراعلیٰ کا انتخاب آج ہونا تھا—فوٹو : ڈان نیوز
پنجاب اسمبلی —تصویر: فیس بک
پنجاب اسمبلی —تصویر: فیس بک

پنجاب اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی کے دوران ووٹنگ کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے 21ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے جبکہ حریف امیدوار پرویز الہٰی کی جماعت مسلم لیگ (ق) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کیا۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایوان سے مخاطب ہوکر کہا کہ آج جمہوریت کی کامیابی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ ممبر صاحبان کا مثبت کردار رہا، آپ کو دیکھ کر میں بھی ثابت قدم رہا۔

ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ ووٹنگ کی گنتی کرلی گئی ہے جس کے مطابق چوہدری پرویز الہٰی نے کوئی ووٹ حاصل نہیں کیا جبکہ محمد حمزہ شہباز نے 197ووٹ حاصل کیے ہیں۔

ڈپٹی اسپیکر نے بعدازاں حمزہ شہباز کا وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔

آج جمہوریت کی فتح ہوئی ہے، حمزہ شہباز

وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد حمزہ شہباز نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ کیا بات ہے کہ جس نے ایوان کی پاسداری کو حلف لیا ہے ان کو جب اپنی ہار نظر آئے تو وہ دروازے بند کردوادیں اور ہال سیل کرکے آپ پر حملےکروائیں۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر صاحب آپ نے جس طرح اپنا فرض بہادری سے ادا کیا، میں اس معزز ایوان کے توسط سے آپ کو خراج تحشین پیش کرتا ہوں، ہر طرح سے آپ کو زچ کیا گیا، آپ کے احکامات کو نہیں مانا گیا، عدالت نے آپ کو بلا کر اختیارت دیے گئے اس کے باوجود آج تیسری بار آئین کے ساتھ مذاق کیا گیا۔

—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ قوم 15 دن سے ہیجان کا شکار تھی، لیکن آج جمہویرت کی فتح ہوئی ہے، یہ میری فتح نہیں اس ایوان میں بیٹھے ایک ایک رکن کی فتح ہوئی ہے

حمزہ شہباز نے کہا کہ میں اس رب کا شکر ادا کرتا ہوں، ورکرز، پارٹی ارکان، معزز اتحادی، پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضی، علیم خان، جہانگیر ترین، ملک اسد کھوکھر، راہ حق پارٹی کے معاویہ اعظم اور جگنو محسن سمیت دیگر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

انہوں نے ہم دھاندھلی زدہ الیکشن کے باوجود جمہوریت کی گاڑی چلتا رکھنے کے لیے حلف لیا تھا، عمران خان ہماری کارکردگی کا 10 فیصد بھی دکھاتے تو شاید لوگ مسلم لیگ (ن) کو بھول جاتے۔

نومنتخب وزیراعلٰی پنجاب نے کہا کہ جہانگیر ترین کے خلاف مقدمے بنائے گئے، میں بحیثیت قیدی پروڈکشن آرڈر لے کر ایوان میں پیش ہوتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ میں عمران نیازی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے نوجوانوں کو کروڑوں نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں کا جھانسہ دیا، آج لوگ بیروزگار اور بے گھر ہیں، یہ کونسی ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ 2018 میں جب مسلم لیگ (ن) نے اقتدار چھوڑا تو 5.8 فیصد گروتھ ریٹ تھا جو زمین بوس ہوگیا، 3 سے 4 فیصد مہنگائی کی شرح تھی جو اب 12 فیصد تک پہنچ گئی، برطانوی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ نے کہا کہ پاکستان دنیا کا تیسرا مہنگا ترین ملک ہے۔

حمزہ شہباز نے کہا کہ ہر چیز پر جھوٹ بولا گیا، ہر ایک کو غدار کہا گیا، بھرے جلسوں میں اس ملک کے دوستوں کو للکارا گیا، کبھی ایبسولوٹلی ناٹ کہا جاتا ہے، کبھی یورپی یونین کہا جاتا ہے، دنیا گلوبل ولیج ہے، ہمارے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں،

انہوں نے کہا کہ ہمارے دیرینہ ساتھ چین کو ناراض کیا گیا، اس کے منصوبوں کو کرپشن زدہ کہا گیا، فارن پالیسی میں بھی انا آڑے آگئی۔

نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ میں آج اس ایوان کا اور اپنے قائد محمد نواز شریف کا شکر گزار ہوں، صدر جماعت شہباز شریف کا شکر گزار ہوں، اپنی جماعت کا مشکور ہوں جس نے اپنے کارکن پر اعتماد کا اظہار کیا، میں پنجاب کے عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ حمزہ شہباز آج بھی ایک کارکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرا سفر 1993 میں شروع ہوا، جب مجھے پہلی بار جیل بھیجا گیا اس وقت میں گورنمنٹ کالج کا طالبعلم تھا، میں نے 6 مہینے جیل کاٹی، اس کے بعد مشرف دور میں 10 سال تک میں نے یہاں تنہا وقت یرغمالی کے طور پر گزارا، دادا کی وفات ہوئی تو خاندان کا واحد فرد تھا جس نے انہیں لحد میں اتارا۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد صاحب کو کینسر کا مرض لاحق ہوا، انہوں نے مجھے خط لکھا جو میں آج بھی روز پڑھتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں بڑے بڑے دعووں یا اپنا نام کے ساتھ کپتان اور پلس لگا کر نہیں آیا، میں نواز شریف کا کارکن ہوں، شہباز شریف کا بیٹا ہوں، دن رات ایک کرکے اس عوام کی خدمت کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ بیرونی سازش کے جھوٹے دعوے کیے گئے، اس صوبےمیں ایک نااہل شخص کو وزیراعلٰی لگا کر اس صوبے کے خلاف سازش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک کو آگے بڑھنا ہے تو بہترین بلدیاتی نظام صوبے میں متعارف کروانا ہوگا، اس کے لیے میں سب کے ساتھ بیٹھوں گا اور ان شا اللہ ایک مربوط بلدیاتی نطام لے کر آئیں گے۔

قبل ازیں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی میں آج ہونے والے اجلاس میں شدید ہنگامہ آرائی ہوئی اور اجلاس میں وقفہ کرنا پڑا، جس کے بعد صوبائی اسمبلی کا اجلاس ساڑھے 5 گھنٹے تاخیر کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔

ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری دوبارہ ایوان میں پہنچے، جنہوں نے اراکین سے مخاطب ہونے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال اور نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی کے دروازے بند کردیے گیے۔

ایوان میں اراکین اسمبلی کی جانب سے شور شرابے اور نعرے بازی کا سلسلہ بدستور جاری رہا، جس کے سبب اسپیکر کو ایوان سے مخاطب ہونے میں مشکلات درپیش رہیں۔

اس دوران پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل شروع ہوا، جبکہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان اسمبلی نے اجلاس سے واک آؤٹ کردیا۔

چوہدری پرویز الہٰی پر اراکین اسمبلی کا تشدد

دریں اثنا پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے دوران وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی بھی ہنگامہ آرائی کی زد میں آگئے اور تشدد سے زخمی ہوگئے۔

شدید ہنگامہ آرائی کے دوران چوہدری پرویز الہٰی کو ایوان سے باہر لے جایا گیا۔

ٹیلی ویژن فوٹیج میں سیشن کے دوبارہ آغاز سے قبل چوہدری پرویز الہٰی کے دائیں بازو پر پٹی بندھی دیکھی گئی۔

بعد ازاں ڈان نیوز سے گفگتو کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہٰی نے کہا کہ میں ہمیشہ ان کے ساتھ اچھائی کرتا رہا ہوں، اس کا بدلہ انہوں نے اس طرح دیا ہے کہ میرا بازو توڑ دیا، مجھے سینے میں بھی چوٹ لگی، میں دل کا مریض بھی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس سب کا ذمہ دار آئی جی ہے، شہباز شریف نے ان اسے بات کی ہوئی تھی، پولیس ایوان کے اندر آ ہی نہیں سکتی، جب سے پاکستان بنا ہے یہ پہلی بار ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے سب پی ٹی آئی والوں کو تحمل کا کہا، عدالت میری کب سنتی ہے؟ میں کس کے پاس جاؤں، میں جب گر رہا تھا تو دیکھا اس وقت رانا مشہود میرے اوپر بیٹھا ہوا تھا۔

صوبائی اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر

قبل ازیں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی میں آج صبح ساڑھے 11 بجے ہونے والا اجلاس باقاعدہ آغاز سے قبل ہی ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا جبکہ اراکین اسمبلی کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وزیراعلیٰ کا انتخاب شیڈول تھا، یہ عہدہ عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور ہونے کے بعد یکم اپریل سے خالی تھا۔

پنجاب اسمبلی کے قائد ایوان کے لیے پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے امیدوار اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی تھے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز حکمران جماعت کے منحرف اراکین اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور آزاد اراکین کی حمایت سے میدان میں اترے تھے۔

وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس ہنگامہ آرائی کے باعث تاخیر کا شکار ہوا جو کہ ساڑھے 11 بجے شروع ہونا تھا، اجلاس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کر رہے تھے۔

اجلاس کے باقاعدہ آغاز سے قبل تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی ایوان میں لوٹے لے کر پہنچ گئے اور منحرف اراکین کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔

وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس اس وقت ہنگامہ آرائی کے باعث تاخیر کا شکار ہے—فوٹو : ڈان نیوز
وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اجلاس اس وقت ہنگامہ آرائی کے باعث تاخیر کا شکار ہے—فوٹو : ڈان نیوز

اجلاس کی صدارت کے لیے دوست محمد مزاری ایوان میں پہنچے تو حکومتی اراکین اسمبلی نے ڈپٹی اسپیکر کی نشست کا گھیراؤ کرلیا، اس دوران ان کی جانب لوٹے بھی اچھالے گئے اور ان کے بال بھی نوچے گئے، جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر کو سخت سیکیورٹی میں ایوان سے باہر لے جایا گیا۔

دریں اثنا حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان ہاتھا پائی بھی شروع ہوگئی، صورتحال پر قابو پانے کے لیے ایس ایس پی آپریشنز کے ہمراہ پنجاب پولیس کی بھاری نفری پنجاب اسمبلی پہنچ گئی۔

تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی ایوان میں لوٹے کر پہنچ گئے—فوٹو : پنجاب اسمبلی
تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی ایوان میں لوٹے کر پہنچ گئے—فوٹو : پنجاب اسمبلی

اس دوران اسمبلی کے اندر موجود پرویز الہٰی نے مسلم لیگ (ن) پر پولیس کو ایوان کے اندر لانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ پولیس ایوان میں آئی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کون ہوتی ہے جو اسمبلی میں داخل ہو؟

چوہدری پرویز الہٰی نے کہا کہ پولیس کون ہوتی ہے جو اسمبلی میں داخل ہو—فوٹو:ڈان نیوز
چوہدری پرویز الہٰی نے کہا کہ پولیس کون ہوتی ہے جو اسمبلی میں داخل ہو—فوٹو:ڈان نیوز

مسلم لیگ (ق) کے رہنما نے کہا ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) ہمارے سامنے پیش ہوں اور انہیں ایک ماہ کی سزا دی جائے گی۔

شدید ہنگامہ آرائی کے بعد ڈپٹی اسپیکر اسمبلی سے روانہ ہوگئے۔

دریں اثنا ترجمان پنجاب اسمبلی کی جانب سے کہا گیا کہ جب تک ووٹنگ نہیں ہو گی اجلاس ملتوی نہیں ہو گا.

بعد ازاں بلٹ پروف جیکٹس میں ملبوس اینٹی رائٹ فورس کے اہلکار پنجاب اسمبلی کے پرانے گیٹ سے ایوان میں داخل ہوگئے ہیں جوکہ ڈپٹی سپیکر پر حملہ کرنے والے ارکان اسمبلی کی نشاندہی کرکے انہیں گرفتار کریں گے۔

پولیس نے ارکان صوبائی اسمبلی کو اسپیکرڈائس سے ہٹایا اور اسپیکر ڈائس کا کنٹرول سنبھال لیا۔

ڈپٹی اسپیکر عدالت کے زور پر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے تو چیلنج تو ہوگا، چوہدری پرویز الٰہی

چوہدری پرویز الہٰی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہا کہ آئین کے تحت اسمبلی کی معاملات میں عدالت دخل اندازی نہیں کر سکتی، جھگڑا اس پر شروع ہوا کیونکہ عدالت میں ہماری اپیل کی بنیاد ہی یہی تھی کہ آپ کون ہوتے ہیں جو ہمیں بتائیں کہ یہ ہوسکتا ہے اور یہ نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت ڈپٹی اسپیکر کے پاس اب اختیار نہیں رہا، اختیار اب صرف اسپیکر کے پاس ہے، میں خود وزارت اعلیٰ کے لیے الیکشن لڑ رہا ہے اس لیے میں نے اختیارات ڈپٹی اسپیکر کو دیے، اب اگر ڈپٹی اسپیکر ان اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے اور عدالت کے غلط زور کے اوپر ایسا کرتا ہے تو پھر وہ تو چیلنج ہونا ہی تھا، وہ ایوان کے اندر نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ جب عدالت نے حکم دیا کہ ڈپٹی اسپیکر ہی کارروائی آگے بڑھائے گا، میرے سارے اختیارات انہوں نے معطل کردیے جو کہ غیرقانونی ہے۔

انہوں نے آج ایوان میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ جب سے پاکستان بنا ہے اس وقت سے آج تک پولیس ایوان کے اندر نہیں آسکتی تھی، جمہوریت کے نام پر سب سے بڑا دھبہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر آنے والے منحرف اراکین کا فیصلہ کیوں روکا گیا؟ انہیں کیوں اندر آںے دیا گیا؟ بات یہاں سے شروع ہوئی ہے، وہ ان منحرف اراکین کو ساتھ لے کر آگئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے انہیں کچھ نہیں کہا گیا، تو پھر ہمارے منحرف لوگوں کو زبردستی کیوں لایا گیا؟ انہیں کیش کس نے دیا؟ کس نے انہیں وزارتوں کی آفر کرکے ورغلایا اور 3 ہوٹلوں میں رکھنے کے بعد بسوں میں بھر کر یہاں لے کر آگئے۔

انہوں نے کہا کہ حدود سے تجاوز کیا گیا اور ہمارےووٹرز کو اٹھا کر لے آئے، آپ کیوں کسی کے ووٹر کو اٹھا کر لاتے ہو؟ اس طرح یہ انتخاب صاف اور شفاف نہیں رہا، ان کا فنانسر علیم خان ہے، شریفوں کے ساتھ ہم 20 سال اکھٹے رہے ہیں، زندگی میں اپنے پلی سے کبھی پیسے نہیں دیے، لوگوں کے لگواتا ہے، انہوں نے کم از کم ڈیڑھ دو ارب لگائے ہیں۔

ہم رات 12 بجے تک یہیں پر ہیں، عطاللہ تارڑ

ایوان میں ہنگامہ آرائی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ نے اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہا کہ آج آئین اور قانون کو پیروں تلے روندا گیا، آئین پاکستان کے ساتھ یہ کھلواڑ یکم اپریل سے جاری ہے، وزیراعلیٰ کا انتخاب خلاف آئین اور خلاف قانون تاخیر کا شکار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم پہلے دن سے چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ان کی نیت میں کھوٹ ہے یہ الیکن آگے کروانا پر چاہتے ہیں یہ بدنیتی پر مبنی فیصلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج جس طریقے سے ڈپٹی اسپیکر پر حملہ کیا گیا یہ دہشتگردی کا واقعہ ہے، میری اطلاعات ہیں کہ چوہدری پرویز الہی ایک دو بندوں کو قتل کروانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے گزارش کروں گا کہ آج جو ہنگامہ آرائی ہوئی وہ ان کے حکم کی خلاف ورزی ہے، اگر انہوں نے نوٹس نہ لیا تو یہ حالات برقرار رہیں گے، ہم رات 12 بجے تک یہیں پر ہیں۔

سیاسی رہنماؤں کی ڈپٹی اسپیکر پر حملے کی مذمت

ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری پر حملے اور صوبائی اسمبلی کے اندر ہنگامہ آرائی پر حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔

صدر مسلم لیگ (ن) اور نومنتخب وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے اندر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان اسمبلی کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر پر حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ تشدد اور غنڈہ گردی کا یہ صریح مظاہرہ خالصتاً فاشزم ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کا مضطرب رویہ اور تشدد پر اکسانا ہمارے معاشرے کو توڑ رہا ہے، وہ خود جمہوریت پر حملہ آور ہیں۔

یہ ہماری عدالتوں پر حملہ ہے، بلاول بھٹو زرداری

چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر پنجاب پر حملہ صرف پنجاب اسمبلی پر حملہ نہیں، یہ ہماری عدالتوں پر حملہ ہے جس نے آج الیکشن کرانے کا فیصلہ دیا تھا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ ہماری جمہوریت پر حملہ، ہمارے آئین پر حملہ، ہمارے وفاق پر حملہ اور جنوبی پنجاب کے عوام پر حملہ ہے۔

پنجاب کا حق پنجاب کے عوام کو آج انشا اللّہ مل کر رہے گا، مریم نواز

مسلم لیگ (ن) کے رہنما مریم نواز نے کہا کہ غنڈہ گردوں کے گروہ نے جس کا نام PTI ہے پنجاب میں اپنی شکست سامنے دیکھتے ہوئے پھر سے غنڈہ شروع کر دی۔

اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا کہ جتنا چاہے پھڑپھڑا لو، پنجاب کا حق پنجاب کے عوام کو آج انشا اللّہ مل کر رہے گا، وہ ترقی جو 2018 میں ان سے چھین لی گئی تھی، وہ پنجاب واپس لے کر رہے گا۔وزیر اعلی حمزہ شہباز انشا اللّہ!

انہوں نے مزید کہا کہ اس غنڈہ گرد اور سڑک چھاپ PTI کا جڑ سے خاتمہ ہر پاکستانی کا اولین فرض ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کلچر کسی طرح بھی ملک و قوم کے لیے اچھا نہیں بلکہ تباہی ہے، اس کا فوری سدباب اور خاتمہ ضروری ہے۔ پنجاب کے عوام ان کے چہرے پہچان لے۔

توڑ پھوڑ، غنڈہ گردی اور تشدد کا مظاہرہ قابل مذمت ہے، احسن اقبال

پنجاب اسمبلی کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ عمران نیازی ہر سطح پر انتشار پھیلانے پر تلا ہوا ہے۔

اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان صوبائی اسمبلی کی جانب سے وزیر اعلیٰ کا انتخاب روکنے کے لیے توڑ پھوڑ، غنڈہ گردی اور تشدد کا مظاہرہ قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران ثابت کر رہا ہے کہ وہ ہٹلر کا چیلا ہے لیکن اسے روکا جائے گا۔

کوئی ہنگامہ آرائی ہوئی تو ذمہ دار ڈپٹی اسپیکر ہوں گے، پرویز الٰہی

قبل ازیں پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ اگر نتائج نا انصافی پر مبنی ہوئے تو انہیں تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

ڈپٹی اسپیکر کے پیسے لینے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ انہیں اس متعلق کوئی علم نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ق) کی درخواستیں خارج، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے اختیارات برقرار

وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بعد متوقع ہنگامی آرائی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ سوال ان کے پوچھیں جس کے پاس آج اختیارات ہیں، ہنگامہ آرائی، انتخاب اور انصاف کی فراہمی ان ہی کی ذمہ داری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی شرارت یا ہنگامہ آرائی ہوئی تواس کے ذمہ ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری ہوں گے۔

ایک صحافی نے سوال کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کہاں سے ہدایات لے رہے ہیں، جس پر پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ وہ ہمیں پتا ہے آپ کو بعد میں بتائیں گے۔

تمام صوبوں کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ بنائیں گے، حمزہ شہباز شریف

وزارت اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز شریف نے اسمبلی پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب پاکستان نہیں ہے لیکن پاکستان کا بڑا صوبہ ہے، تمام صوبوں کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ بنائیں گے۔

انہوں نے کہا وہ کام کریں گے جس سے اتفاق اور یگانگت پیدا ہو اور پاکستان آگے بڑھے، ان شا اللہ ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ہم پاکستان کے لیے سب سے بات کریں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ چیلنجز یقیناً بہت زیادہ ہیں لیکن الحمد اللہ نیک نیتی کے ساتھ خدمت کریں گے، اللہ سے امید ہے کہ اللہ برکت دے گا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں پہلی ترجیح بھی عوام ہے، دوسری اور تیسری ترجیح بھی عوام ہے، گڈ گورننس لے کر آئیں گے۔

میں نے پریشر لینا نہیں بلکہ پریشر دینا ہے، دوست مزاری

اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کا کہنا تھا کہ کل میں دو رکنی بینچ کے روبرو عدالت میں پیش ہوا تھا جس نے فیصلہ دیا کہ آپ نے آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کروانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میری پوری کوشش ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کے ساتھ میڈیا کو بھی کوریج کی رسائی دی جائے، اور کوئی اگر یہ سمجھ رہا ہے کہ اس نے اسمبلی میں آکر ماحول کو خراب کرنا ہے تو ’میں نے پریشر لینا نہیں بلکہ پریشر دینا ہے‘۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف اراکین ووٹ دے سکتے ہیں اس کے بعد ان کی پارٹی کے سربراہ ان کے خلاف متعلقہ کارروائی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ انشااللہ انتخاب آج ہی ہوگا، نتیجے کا اعلان بھی آج ہی ہوگا۔ حمزہ شہباز سے پیسے لینے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کا کوئی ثبوت ہے توپیش کریں۔

اسمبلی کے باہر سیکیورٹی کے انتظامات پر آئی جی پنجاب سے ملاقات ہوچکی ہے، وہ خود تمام تر معاملات دیکھ رہے ہیں، سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

نمبرز گیم

وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے 371 رکنی ایوان میں امیدوار کو کم از کم 186 ووٹوں کی ضرورت ہے۔

371 رکنی پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 183، مسلم لیگ (ق) کے 10، مسلم لیگ (ن) کے 165، پیپلز پارٹی کے 7، 5 آزاد امیدوار اور ایک کا تعلق راہ حق پارٹی سے ہے۔

پس منظر

یاد رہے کہ 28 مارچ کو پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری محمد خان بھٹی کو عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی۔

اسی روز مرکز میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت نے اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کا مطالبہ منظور کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا استعفیٰ طلب کرلیا تھا۔

مزید پڑھیں:وزیر اعلیٰ کا انتخاب: پنجاب اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل تک مؤخر

چنانچہ 28 مارچ کو ہی عثمان بزدار نے وزیر اعظم عمران خان کو اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا جس کی تصدیق پی ٹی آئی کی وزرا کی جانب سے بھی گئی تھی ساتھ ہی پی ٹی آئی کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کا امیدوار نامزد کردیا گیا تھا۔

ایسے میں کہ جب اپوزیشن اور حکومت دونوں کی جانب سے سادہ اکثریت کا دعویٰ کیا گیا ترین گروپ نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں یکم اپریل کو گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرنے کے ساتھ ساتھ 2 اپریل بروز ہفتہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کرلیا تھا، جس کے ایجنڈے میں قائد ایوان کا انتخاب شامل تھا۔

تاہم 2 اپریل کو ہونے والا اجلاس اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی ہنگامہ آرائی کے باعث وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بغیر ہیملتوی کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جتنی جلدی ہو سکے، پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کرائیں، معاملہ آج ہی حل کریں، چیف جسٹس

اس کے بعد 3 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے پنجاب اسمبلی کا منعقد کیے جانے والا اجلاس بھی بغیر ووٹنگ کے ملتوی کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں 5 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے وزیر اعلیٰ کا انتخاب عمل میں لائے بغیر اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل تک مؤخر کردیا تھا۔

تاہم رات گئے سامنے آنے والی اہم پیش رفت میں انہوں سابقہ حکم نامے کو مسترد کرتے ہوئےصوبائی اسمبلی کا اجلاس اگلے روز ساڑھے 7 بجے بلانے کا حکم جاری کیا تھا جس کی پنجاب اسمبلی کے ترجمان اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کی جانب سے تردید کی گئی تھی۔

اگلے روز 6 اپریل کو پنجاب اسمبلی کی دیواروں پر کانٹے دار تار بچھا دی گئی اور مرکزی دروازے کو بند کردیا گیا جبکہ اپوزیشن کی جانب سے مقامی ہوٹل میں اسمبلی کا علامتی اجلاس منعقد کیا گیا جہاں مریم نواز سمیت اپوزیشن نے دعویٰ کیا کہ حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے ہیں۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی کا اجلاس وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بغیر ملتوی

اس کے بعد 7 اپریل کو پنجاب اسمبلی میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اپنے ہی ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی تھی جس کے بعد سردار دوست محمد مزاری اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے مجاز نہیں رہے تھے۔

بعد ازاں اپوزیشن جماعتیں بھی اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے میں کامیاب ہو گئیں جس سے صوبائی حکومت کے لیے اپنے کارڈز کھیلنے کی گنجائش مزید کم ہو گئی تھی۔

بعد ازاں 9 اپریل کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کرانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں اسپیکر پرویز الہٰی، ڈپٹی اسپیکر اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ یکم اپریل سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ خالی ہے اور صوبہ پنجاب یکم اپریل سے بغیر چیف ایگزیکٹو کے چل رہا ہے، لہٰذا پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کر کے فوری وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرایا جائے۔

حمزہ شہباز کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی نے حکم دیا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری 16 اپریل کو نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل مکمل کرائیں۔

تاہم لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف مسلم لیگ (ق) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے درخواستیں دائر کردی تھیں۔

جن پر گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کے اجلاس کی صدارت کرنے کے خلاف مسلم لیگ (ق) کی دائر کردہ اپیلیں خارج کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ تھا کہ تمام حقائق کو دیکھنے کے بعد عدالت کو ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ دوست مزاری سیشن کے اجلاس کی صدارت کریں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024