قومی اسمبلی کے اجلاس میں تاخیر پر وفاق اور ڈپٹی اسپیکر کو نوٹس جاری
قومی اسمبلی کا اجلاس تاخیر سے بلانے کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاق، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور سیکریٹری قومی اسمبلی کو نوٹس جاری کردیا۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے قومی اسمبلی کا اجلاس تاخیر سے بلانے کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رہنما مرتضیٰ جاوید عباسی کی درخواست پر آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔
لارجر بینچ میں شامل ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں کیس کی سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں: اسپیکر کا انتخاب: قاسم سوری نے قومی اسمبلی اجلاس کا شیڈول تبدیل کردیا
مسلم لیگ (ن) کے رہنما مرتضیٰ جاوید عباسی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اپنی درخواست میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری، سیکریٹری پارلیمانی امور اور سیکریٹری قومی اسمبلی کو فریق بنایا ہے۔
درخواست کے متن میں کہا گیا کہ 13 اپریل کے جس سرکلر میں اجلاس 22 اپریل تک ملتوی کیا گیا وہ آئین سے متصادم ہے، درخواست میں استدعا کی گئی کہ ڈپٹی اسپیکر کو اسپیکر قومی اسمبلی کے اختیارات کا استعمال کرنے سے روکا جائے۔
آج ہونے والی سماعت کے دوران مرتضیٰ جاوید عباسی کے وکیل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 13 اپریل کے سرکلر میں اجلاس 16 اپریل تک ملتوی کیا گیا تھا، اسپیکر کے استعفے کے بعد نئے اسپیکر کے انتخاب کے لیے اجلاس 16 اپریل کو بلایا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کا اجلاس تحریک عدم اعتماد پر بحث کے بغیر اتوار تک ملتوی
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا 16 اپریل کے اجلاس کے ایجنڈے میں ڈپٹی اسپیکر کو عہدے سے ہٹانا تھا؟
وکیل منصور اعوان نے جواب دیا کہ 16 اپریل کے اجلاس کے ایجنڈے میں ڈپٹی اسپیکر کو عہدے سے ہٹانا نہیں تھا بلکہ اجلاس کا ایجنڈا اسپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب تھا، اسپیکر قومی اسمبلی کا دفتر خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رولز کہتے ہیں کہ جتنا جلد ہو سکے اسپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب کیا جائے، چند روز بعد اجلاس بلانے سے کیا فرق پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی اجلاس صبح ساڑھے 10 بجے طلب، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ایجنڈے میں شامل
انہوں نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کا تقدس برقرار رہنا چاہیے، یہ عدالت قومی اسمبلی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کیوں کرے؟ جس پر وکیل منصور اعوان نے جواب دیا کہ یہ قومی اسمبلی کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اسمبلی کی اندرونی کارروائی ہے اور تاریخ مقرر کر دی گئی ہے۔
وکیل نے کہا کہ پہلے اجلاس 16 اپریل کو بلایا گیا پھر بعد میں تبدیل کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اپنے خلاف عدم اعتماد کے روز اجلاس کی صدارت نہیں کر سکتا، اس کے علاوہ رولز میں ڈپٹی اسپیکر پر کوئی قدغن موجود نہیں، جب رولز میں ایسی کوئی قدغن نہیں ہے تو یہ عدالت اس میں نہیں جاتی۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کارکنان کے ٹکراؤ کے امکان پر اپوزیشن پریشان
چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کے پاس اس درخواست میں کوئی مناسب وجہ موجود نہیں ہے، اس عدالت کے سامنے بھی کوئی وجہ نہیں کہ ڈپٹی اسپیکر کے اقدام کو بدنیتی قرار دے۔
وکیل نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے او آئی سی کانفرنس کے باعث اجلاس مؤخر کرنے کی وجوہات لکھی تھیں، ڈپٹی اسپیکر نے اجلاس 22 اپریل تک مؤخر کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ اسپیکر وجوہات بتانے کا پابند ہے؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ کے تقدس کو دیکھنا ہے۔
وکیل منصور اعوان نے کہا کہ پارلیمنٹ کا تقدس کم کرنے میں ہم نے کوئی کردار ادا نہیں کیا، انہوں نے استدعا کی کہ عدالت درخواست پر نوٹس جاری کر کے پیر کو ڈپٹی اسپیکر سے وجوہات طلب کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نوٹس جاری کر کے 22 اپریل تک جواب طلب کر لیتے ہیں۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاق، ڈپٹی اسپیکر اور سیکریٹری قومی اسمبلی کو نوٹس جاری کر کے 22 اپریل تک جواب طلب کر لیا۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کا انتہائی اہم اجلاس تحریک عدم اعتماد پیش ہوئے بغیر ملتوی
واضح رہے کہ 2 روز قبل قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب میں تاخیر کے لیے قواعد کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے قائم مقام اسپیکر قاسم سوری نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے اجلاس کی تاریخ 16 اپریل کے بجائے 22 اپریل مقرر کردی تھی۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جو 16 اپریل کو شام 4 بجے ہونا تھا اب 22 اپریل کو سہ پہر 3 بجے ہوگا، شیڈول میں تبدیلی قومی اسمبلی کے قواعد 2007 کے تحت کی گئی ہے۔
قبل ازیں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے اسپیکر کے انتخاب کے لیے جاری کردہ شیڈول میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے 15 اپریل کی دوپہر 12 بجے تک کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔
اسپیکر قومی اسمبلی کی نشست اس وقت سے خالی ہے جب اسد قیصر نے 9 اپریل کو مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وزارت عظمیٰ کا انتخاب کروانے کی ذمہ داری سنبھالنے سے قبل استعفیٰ دے دیا تھا۔