• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پی اے سی کی چیئرمین نیب سے ملک ریاض پر غیر ضروری احسانات کرنے پر پوچھ گچھ

شائع April 15, 2022
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے پی اے سی کو نیب کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی 4 سالہ کارکردگی پر بریفنگ دی—فائل فوٹو: اے پی ہئ
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے پی اے سی کو نیب کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی 4 سالہ کارکردگی پر بریفنگ دی—فائل فوٹو: اے پی ہئ

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال سے برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے مجرمانہ کارروائی نتیجے میں پاکستان کو ملنے والے 14 کروڑ پاؤنڈز سپریم کورٹ میں بطور جرمانہ بھرنے کی اجازت دے کر غیر ضروری احسانات کرنے پر پوچھ گچھ کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2019 میں سپریم کورٹ نے ملک ریاض کی ملکیت میں موجود بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ کی ملیر یا کراچی سپر ہائی وے منصوبے سے متعلق معاملات کے تصفیے کرنے کے لیے 460 ارب روپے کی ادائیگی کی پیشکش قبول کرلی تھی۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس مسلم لیگ (ن) کے رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:برطانیہ: نیشنل کرائم ایجنسی ملک ریاض سے 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے پر رضامند

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے پی اے سی کو نیب کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی 4 سالہ کارکردگی پر بریفنگ دی اور قانون سازوں سے درخواست کی کہ وہ انسداد بدعنوانی کے ادارے کے پروں کو کاٹیں نہیں

نیب کے ڈائریکٹر جنرل (ہیڈ کوارٹر) حسنین احمد نے این سی اے کے ساتھ ملک ریاض کے عدالت سے باہر تصفیہ کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ نومبر 2019 میں لندن میں ملک ریاض کے خاندان سے برآمد ہونے والی رقم تقریباً 14 کروڑ پاؤنڈز تھی جو سپریم کورٹ کے زیر انتظام اکاؤنٹ میں منتقل کردی گئی تھی۔

بیورو نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 19 کروڑ پاؤنڈز کے تصفیے میں سے این سی اے نے 14 کروڑ پاؤنڈز واپس کر دیے جبکہ باقی رقم ملک ریاض سے ضبط کی گئی غیر منقولہ جائیداد کی ہے جو ابھی موصول ہونا باقی تھی۔

مزید پڑھیں: ملک ریاض کے معاملے میں کسی ’جرم‘ کا ارتکاب نہیں کیا گیا، شہزاد اکبر

مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے سوال کیا کہ این سی اے سے حاصل ہونے والی مجرمانہ رقم ملزم کو جرمانے کی ادائیگی کے لیے کیسے دی جا سکتی ہے۔

ان کا خیال تھا کہ چونکہ یہ رقم این سی اے نے بطور لانڈرڈ منی کے طور پر ضبط کی تھی اور بعد میں پاکستان واپس آ گئی تھی اس لیے یہ سرکاری خزانے سے تعلق رکھتی تھی اور اسے صرف عوام کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'آپ نے جرم کی رقم ایک مجرم کو واپس کردی'۔

پی اے سی کے استفسار پر جسٹس (ر) اقبال نے اس معاملے پر لاعلمی کا اظہار کیا لیکن کہا کہ چونکہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع ہو چکی ہے اس لیے وہ عدالت عظمیٰ کی انتظامیہ سے حقائق کی تصدیق کے بعد 15 روز میں جواب دے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ملک ریاض کا این سی اے سے تصفیہ: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا برطانیہ سے 'شفافیت' کا مطالبہ

دوسری جانب باخبر ذرائع نے بتایا کہ این سی اے سے موصول ہونے والی رقم اس وقت کی وفاقی کابینہ کی منظوری سے سپریم کورٹ کے زیر انتظام اکاؤنٹ میں جمع کرائی گئی تھی۔

اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے 2019 میں برطانوی ایجنسی سے موصول ہونے والی رقم ٹھکانے لگانے کے لیے کابینہ سے منظوری حاصل کی تھی۔

نیشنل کرائم ایجنسی منی لانڈرنگ اور برطانیہ اور بیرون ملک مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی غیر قانونی مالیات کی تحقیقات کرتی ہے اور بعد کی صورت میں، چوری شدہ رقم متاثرہ ریاستوں کو واپس کرتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024