اسپیکر کا انتخاب: قاسم سوری نے قومی اسمبلی اجلاس کا شیڈول تبدیل کردیا
قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب میں تاخیر کے لیے قواعد کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے قائم مقام اسپیکر قاسم سوری نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے اجلاس کی تاریخ 16 اپریل کے بجائے 22 اپریل مقرر کردی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جو 16 اپریل کو شام 4 بجے ہونا تھا اب 22 اپریل کو سہ پہر 3 بجے ہوگا، شیڈول میں تبدیلی قومی اسمبلی کے قواعد 2007 کے تحت کی گئی ہے۔
قبل ازیں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے اسپیکر کے انتخاب کےلیے جاری کردہ شیڈول میں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لیے 15 اپریل کی دوپہر 12 بجے تک کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔
اسپیکر قومی اسمبلی کی نشست اس وقت سے خالی ہے جب اسد قیصر نے 9 اپریل کو مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وزارت عظمیٰ کا انتخاب کروانے کی ذمہ داری سنبھالنے سے قبل استعفیٰ دے دیا۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کا اجلاس تحریک عدم اعتماد پر بحث کے بغیر اتوار تک ملتوی
شہباز شریف کے بطور وزیر اعظم انتخاب اور ان کی تقریر کے فوراً بعد قاسم سوری اچانک ایوان میں واپس آگئے اور اجلاس 16 اپریل تک ملتوی کر دیا گیا تھا جبکہ ایاز صادق خطاب کے لیے پہلے ہی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے نام کا اعلان کر چکے تھے۔
رول 49 (2) بعنوان ’اجلاس اور التوا کے اوقات‘ میں کہا گیا ہے کہ ’ان قواعد کی دیگر دفعات کے تابع، (اے) اسپیکر اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر سکتا ہے اور (ب) اگر وہ مناسب سمجھے تو اسمبلی کا اجلاس اس سے مختلف وقت یا تاریخ پر بلائے گا جس سے پہلے اسے ملتوی کیا گیا تھا اور اس تبدیلی سے اراکین کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اعلان کے ذریعے آگاہ کیا جائے گا۔
ڈپٹی اسپیکر اقدام اس وقت سامنے آیا جب ایاز صادق اور پیپلز پارٹی کی رہنما کی شیری رحمٰن نے ان پر قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ پر دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا کہ وہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے استعفے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو بھیجیں۔
پی ٹی آئی وزیر اعظم کے انتخاب کے بائیکاٹ کے بعد اب اپوزیشن میں ہے، اب دیکھنا ہے کہ آیا اس کی طرف سے کوئی امیدوار آئے گا۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی اجلاس صبح ساڑھے 10 بجے طلب، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ایجنڈے میں شامل
تاہم پیپلز پارٹی کے حلقوں میں سندھ سے سید خورشید شاہ، سید نوید قمر اور شازیہ مری اور پنجاب سے راجا پرویز اشرف کے نام سرفہرست ہیں جبکہ راجا پرویز اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔
اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ سندھ سے امیدواروں کے درمیان برابری کے پیش نظر پیپلز پارٹی جسے نو جماعتی اتحاد نے مطلوبہ مقام دیا ہے، اپنے پنجاب کے صدر راجا پرویز کو یہ عہدہ پیش کرے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے صدر کے اعلیٰ عہدے کے لیے سندھ سے پارٹی رہنما کو نامزد کرنے کی راہ بھی ہموار ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد اسپیکر کے انتخاب کے بعد وزیر اعظم کا انتخاب ہونا تھا۔
آرٹیکل 53 (1) کہتا ہے کہ ’اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی، کسی دوسرے کام کو چھوڑ کر، اپنے کسی مسلمان رکن کو وزیر اعظم کے لیے بحث کیے بغیر منتخب کر سکتی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کارکنان کے ٹکراؤ کے امکان پر اپوزیشن پریشان
سابق اسپیکر اسد قیصر نے وزارت عظمیٰ کے انتخاب سے قبل استعفیٰ دے دیا تھا تاہم آرٹیکل 91 (3) کے تحت بعد میں آنے والے اسپیکر کے انتخاب کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل میں اسپیکر کے انتخاب پر ترجیح دی گئی۔
خیال رہے کہ اپوزیشن پہلے ہی قاسم سوری کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کر چکی ہے، جو اس وقت قائم مقام اسپیکر ہیں اور توقع ہے کہ وہ اپنے اوپر کلہاڑی گرنے سے قبل ہی استعفیٰ دے دیں گے۔
آرٹیکل 53، شق (7) ذیلی شق سی میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر/ڈپٹی اسپیکر کو اسمبلی کی ایک قرارداد کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا جاسکتا ہے، اسمبلی کے کُل ارکان کی اکثریت سے قرارداد منظور ہونے کے بعد اسے کم از کم 7 روز کا نوٹس دیا جاتا ہے۔
اسمبلی کی جانب سے اسپیکر کے انتخاب کے بعد ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب پر توجہ مرکوز کی جائے گی جس کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی شاہدہ اختر علی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے آغا حسن بلوچ کے نام سرفہرست ہیں۔