پہلے معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے پھر حکومت میں شراکت داری ہوگی، ایم کیو ایم
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر امین الحق نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت میں شمولیت کی دعوت موجود ہے لیکن پہلے معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے پھر حکومت میں شراکت داری ہوگی۔
وزیر اعظم شہباز شریف آج کراچی کا ایک روزہ دورہ کر رہے ہیں جس میں وہ اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے عارضی مرکز بہادر آباد بھی جائیں گے اور رابطہ کمیٹی سے ملاقات کریں گے۔
وزیر اعظم کے دورے سے متعلق ڈان نیوز سے خصوصی بات کرتے ہوئے امین الحق نے کہا کہ ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ اس کے جس معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے اس پر شق وار عمل ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم پاکستان کا حکومت سے علیحدگی کا اعلان، متحدہ اپوزیشن سے معاہدے پر دستخط
انہوں نے کہا کہ ہم پُرامید ہیں کہ شہباز شریف اور ان کی پارٹی نے ہمارے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس کی پاسداری ہوگی اور ہماری خواہش ہے کہ اربن ڈولپمنٹ سے متعلق جو بھی چیز ہے اس پر ہر صورت عملدرآمد کیا جائے۔
معاہدے میں کون سی ایسی چیزیں ہیں جن پر فوری عملدرآمد ہونا چاہیے کہ سوال پر امین الحق نے کہا کہ 2 سے 3 چیزیں اہم ہیں، سب سے پہلے ہم کہتے ہیں کہ بلدیاتی حکومت کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے، اس سلسلے میں ہم نے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں سے کہا ہے اور سندھ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ اس کو صوبائی اسمبلی سے منظور کرلیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ ’کے فور‘ اور ’کے سی آر‘ کا منصوبہ ہے اس پر بات چیت جاری رہے گی اور ہم چاہیں گے دونوں منصوبوں کی تکمیل وقت پر ہو۔
ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ سب سے اہم چیز یہ کہ گزشتہ دورِ حکومت میں جو ڈیجیٹل مردم شماری کا کام شروع کیا گیا تھا اسے ہر صورت مکمل کیا جائے۔
مزید پڑھیں:ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ن) کا نئے صوبوں کے قیام پر اتفاق
وفاقی حکومت میں شمولیت سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم کو حکومت میں شمولیت کی دعوت ہے، لیکن ہم واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ پہلے معاہدے پر عملدرآمد کرایا جائے پھر حکومت میں شراکت داری ہوگی۔
حکومت سندھ کی جانب سے حکومت میں شمولیت کی دعوت کے سوال پر بھی انہوں نے یہ کہا کہ پہلے معاہدے پر عملدرآمد کیا جائے پھر حکومت سازی کا معاملہ دیکھا جائے گا۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دورِ حکومت میں بھی ایم کیو ایم حکومت کا حصہ تھی جس میں امین الحق بحیثیت وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جبکہ فروغ نسیم بطور وفاقی وزیر قانون کابینہ کا حصہ تھے۔
تاہم اپوزیشن کی جانب سے سابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پارٹی نے اس وقت کے اپوزیشن اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور عدم اعتماد میں حکومت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانے کے اعلان کے ساتھ ایم کیو ایم نے میڈیا کے سامنے اپوزیشن میں شامل تمام جماعتوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط بھی کرائے تھے۔
ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن) معاہدہ
خیال رہے کہ شہری سندھ کے لوگوں کے لیے ’حقوق کے چارٹر‘ نام سے دستاویز پر مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال اور ایم کیو ایم کے عامر خان نے دستخط کیے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق اور ایم کیو ایم کے کنور نوید جمیل نے بطور گواہ دستخط کیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: 'مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے خیالات ایک جیسے ہیں'
چارٹر کی شق 17 میں کہا گیا تھا کہ پورے پاکستان میں نئے انتظامی یونٹس کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے اور ایم کیو ایم۔ پاکستان سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نئے انتظامی یونٹس بنانے کے لیے ایک ٹائم لائن پر اتفاق کیا جائے گا، انہوں نے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
27 نکاتی حقوق کے چارٹر میں ایم کیو ایم پاکستان کے دیرینہ مطالبات کا احاطہ کیا گیا تھا جس میں بند کیے گئے دفاتر کو دوبارہ کھولنا، لاپتا افراد کی بازیابی، پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف درج جھوٹی ایف آئی آر ختم کرنا، وفاقی حکومت کی ملازمتوں میں شہری سندھ کا حصہ بڑھانا، ترقیاتی پیکجز بشمول کے۔فور واٹر سپلائی اسکیم اور کراچی سرکلر ریلوے وغیرہ کی تکمیل پر عملدرآمد شامل ہے۔
مزید برآں ایم کیو ایم پاکستان، مسلم لیگ (ن) کو عمران خان حکومت کے دیے گئے شیڈول کے مطابق اگلی قومی مردم شماری کرانے کے لیے پی ٹی آئی حکومت کے منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے قائل کرنے میں بھی کامیاب رہی تھی۔