وزیراعظم کی جانب سے مراسلے کی تحقیقات کی پیش کش، پی ٹی آئی نے مسترد کردی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وزیراعظم شہباز شریف کی امریکا سے بھیجے گئے پاکستانی سفیر کے مراسلے کی تحقیقات کی پیش کش مسترد کردی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ ‘شہباز شریف کی لیٹر گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کرانے کی پیش کش کو مسترد کرتے ہیں’۔
یہ بھی پڑھیں: دھمکی آمیز خط: حکومت کا تحقیقاتی کمیشن بنانے، مواد اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان
انہوں نے کہا کہ ‘یہ خود کو این آر او دینے کی بھونڈی کوشش ہے، لیٹر گیٹ کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کو آزاد کمیشن بنانا چاہیے، جس کی سربراہی ایسے شخص کے پاس ہو جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے’۔
اس سے قبل وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد تقریر میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے سے ڈرامہ چل رہا ہے کہ کوئی خط آیا ہے، کہاں سے آیا ہے، میں نے نہ وہ خط دیکھا نہ مجھے وہ خط کسی نے دکھایا، میں سمجھتا ہوں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں کہتا ہوں کی اس خط پر پارلیمان کی سیکیورٹی کمیٹی میں ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔
انہوں نے کہا اس خط پر پارلیمان کی سیکیورٹی کمیٹی کی ان کیمرہ بریفنگ میں مسلح افواج کے سربراہان، خط لکھنے والے سفیر اور اراکین پارلیمنٹ موجود ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: دھمکی آمیز خط: فواد چوہدری کی وزارت قانون کا اضافی چارج سنبھالتے ہی کمیشن بنانے کی ہدایت
ان کا کہنا تھا کہ اگر خط کے معاملے میں ذرہ برابر بھی سچائی ثابت ہوئی تو میں وزارت عظمیٰ سے اسعتفیٰ دے کر گھر چلا جاؤں گا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے مراسلہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ اس خط میں کیا ہے۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک کاغذ لہراتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں ہمارے سفیر کی امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو کے ملاقات کی تفصیلات درج ہیں، جس میں پاکستان کو مبینہ طور پر دھمکی گئی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ سازش قومی اسمبلی میں ان کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد سے متعلق ہے اور اس میں اپوزیشن بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں پاکستانی سفیر نے بتایا کہ ڈونلڈ لو نے خبردار کیا کہ عمران خان کا بطور وزیراعظم تسلسل دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات کے لیے سخت نتائج کا باعث ہوگا۔
عمران خان نے کہا تھا کہ امریکا کو ہماری آزاد خارجہ پالیسی اور روس کے دورے پر اعتراض ہے۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم کےخلاف ’دھمکی آمیز خط‘ کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے مبینہ ’دھمکی آمیز‘ خط کی تحقیقات، عمران خان اور سابق وزرا کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے حوالے سے دائر کی گئی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے درخواست گزار پر جرمانہ عائد کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے درخواست پر سماعت کی اور درخواست گزار سے استفسار کیا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے، آپ اسے کیوں سیاسی کرنا چاہتے ہیں یہ خط نہیں کیبل تھا، خط اور کیبل میں فرق ہوتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ سابق منتخب وزیر اعظم کے خلاف لگائے گئے الزامات اور دعوے ناقابل بحث ہیں۔
تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ یہ کیبل پاکستان کے ایک سفارت کار کی جانب سے وزیر اعظم کو بھیجا گیا لہذا متنازع اور موضوع قانونی چارہ جوئی عوامی اور ملکی مفادات کے خلاف ہے۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ ملک کے خارجہ امور سے متعلق معاملات انتہائی حساس ہوتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت غیر معمولی دائرہ اختیار استعمال کر کے سماعت نہیں کی جا سکتی۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان اور سابق وزرا کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست مسترد
ان کا مزید کہنا تھا کہ پٹیشن میں دعویٰ مبہم ہے اس کی تائید میں دستاویز بھی پیش نہیں کی گئی کہ سفارتی کیبل کے موضوع پر کیس کا جواز پیش کیا جا سکے۔
عدالت نے کہا کہ بطور شہری ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ قومی سلامتی کے حساس معاملات کو سنسنی خیز یا سیاسی نہ بنایا جائے۔
تحریری فیصلے میں عدالت کی جانب سے درخواست گزار پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
دھمکی آمیز خط کا معاملہ کیا ہے؟
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں آج قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، میں الزامات نہیں لگا رہا، میرے پاس جو خط ہے، یہ ثبوت ہے اور میں آج یہ سب کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی شک کر رہا ہے، میں ان کو دعوت دوں گا کہ آف دا ریکارڈ بات کریں گے اور آپ خود دیکھ سکیں گے کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم ’دھمکی آمیز خط‘ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کیلئے تیار ہیں، اسد عمر
ان کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے دل کھول کر کہہ رہا ہوں، بیرونی سازش پر ایسی کئی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ لندن میں بیٹھا ہوا کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے کے اوپر چل رہے ہیں۔
تاہم وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ساتھ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا تھا کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں خط کیوں نہیں دیا جارہا، کچھ راز قومی نوعیت کے ہوتے ہیں، وزیر اعظم نے مجھے کہا ہے کہ اگر کسی کو کوئی شک ہے تو ہم یہ خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دکھانے کے لیے تیار ہیں، ان پر سب اعتماد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا مجھے اجازت نہیں ہے کہ اس خط میں لکھے ہوئے الفاظ بتاسکوں لیکن کلیدی باتیں دہرا دیتا ہوں کہ اس مراسلے کی تاریخ عدم اعتماد تحریک پیش ہونے سے قبل کی ہے، یہ اہم اس لیے ہے کہ اس مراسلے میں براہِ راست تحریک عدم اعتماد کا ذکر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شیخ رشید کا وزیر اعظم کے خط سے متعلق لاعلمی کا اظہار
اسد عمر نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ خط میں دو ٹوک الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوتی اور عمران خان وزیر اعظم رہتے ہیں تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔
اسد عمر نے کہا تھا کہ قانونی بندشوں کے سبب یہ مراسلہ صرف اعلیٰ ترین فوجی قیادت اور کابینہ کے کچھ اراکین کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے، اس لیے وزیر اعظم نے یہ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا تھا کہ اس مراسلے میں براہِ راست پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ذکر ہورہا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ مراسلے میں پیغام دیا گیا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک اور بیرونی ہاتھ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مراسلے میں نواز شریف ملوث ہیں جو لندن میں بیٹھ کر ملاقاتیں کر رہے ہیں، نواز شریف کس کس سے ملتے رہے، وزیراعظم جب چاہیں گے اس کی تفصیل بتا دیں گے، پی ڈی ایم کی سینئر لیڈر شپ اس بات سے لاعلم نہیں ہے۔
اس موقع پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے لندن میں بہت ساری ملاقاتیں کی ہیں اور وہ ملاقاتیں رپورٹ بھی ہوئی ہیں کہ جس میں ان کی اسرائیلی سفارت کار سے بھی ملاقات ہوئی ہے، پھر اس کے بعد ہمیں یہ خط موصول ہوا ہے جس میں تحریک عدم اعتماد کا ذکر ہے جبکہ یہ خط تحریک عدم اعتماد جمع کرانے سے پہلے کا ہے اور یہ ہی بات قابل تشویش ہے۔