ڈالر کی قدر سیاسی بے یقینی کے خاتمے کے ساتھ 183 پر پہنچ گئی
ملک میں سابق وزیراعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹانے اور سیاسی بے یقینی کے خاتمے کے ساتھ ہی ڈالر کی قدر میں کمی کا رجحان جاری ہے اور نئے وزیراعظم کے انتخاب سے قبل ہی ڈالر 183 روپے تک پہنچ گیا۔
فوریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق ڈالر انٹربینک مارکیٹ میں دوپہر 12:01 تک 1 روپے 68 پیسے کمی کے ساتھ 183 روپے تک پہنچ گیا تھا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری
قبل ازیں گزشتہ ہفتے کا اختتام 184.68 پر ہوا تھا جبکہ ایک وقت میں ڈالر کی قیمت 188.18 روپے ہوگئی تھی۔
ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے فوریکس ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر ملک بوستان نے روپے کی قدر میں بہتری ملک میں سیاسی استحکام کو قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ روپے کی قدر میں ایک غیریقینی کیفیت کے بعد بہتری آئی ہے اور امید ظاہر کی کہ جب ایک حکومت تشکیل پائے گی تو مزید بہتری آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ تعطل کا شکار مذاکرات جب نئی حکومت آئے گی تو دوبارہ شروع ہونے کی امید ہے اور آرام سے طے پائیں گے۔
ملک بوستان نے توقع کا اظہار کیا کہ وہ ڈالر 180 روپے سے نیچے چلا جائے گا۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ سیاسی استحکام سے آئی ایم ایف کے ساتھ معطل پروگرام کی بحالی، کاروباری افراد کا اعتماد بحال کرنے اور بیرونی سرمایہ لانے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس سے ڈالر کی سپلائی میں اضافہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں روپے کی قدر میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹیو (سی ای او) محمد سہیل کا کہنا تھا کہ مقامی کرنسی بونڈ مارکیٹ کا بھی روپے اور اسٹاک مارکیٹ کے ساتھ انحصار ہے۔
خیال رہے کہ اسٹارک مارکیٹ میں کاروباری ہفتے کے پہلے روز 1300 پوائنٹ کا اضافہ ہو چکا ہے اور پاکستان انوسٹمنٹ بونڈز (پی آئی بی) گزشتہ چند روز سے تقریباً 60 سے 70 پوائنٹس تک کمی آگئی ہے۔
گزشتہ ہفتے انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ کے بعد 1.9 فیصد تک بہتری آگئی تھی، جس کی وجہ بڑے حد تک قومی اسمبلی کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے اور مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں 2.5 فیصد اضافے سے جوڑا گیا تھا۔
مارکیٹ کے ماہرین اور کرنسی ڈیلرز کا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے غیریقینی میں کمی آئی ہے، جس سے مارکیٹ کو طویل وقت تک گرفت میں رکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایکسچینج ریٹ معمولی ترسیلات زور اور نئی حکومت کی معاشی پالیسیوں سمیت کئی شعبوں کے لیے بدستور خطرناک ہے۔