شہباز شریف پاکستان کے 23ویں وزیر اعظم منتخب ہوگئے
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف 174 ووٹ لے کر پاکستان کے 23ویں وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔
وزیر اعظم پاکستان منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کا جنتا شکر ادا کروں کم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی عوام کی دعاؤں سے آج وزیر اعظم منتخب ہوا، یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی، حق کو فتح حاصل ہوئی، باطل کو شکست ہوئی، اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو قوم کی دعاؤں سے بچا لیا۔
یہ بھی پڑھیں:صدر عارف علوی نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف سے حلف نہیں لے پائیں گے
انہوں کا کہنا تھا کہ یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ دھاندلی کی پیداوار وزیر اعظم کو آئینی اور قانونی طریقے سے گھر بھیجا گیا۔
عوامی مفاد میں اعلانات:
- یکم اپریل سے کم از کم ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے ہوگی
- یکم اپریل سے سول اور ملٹری ریٹائرڈ پنشنرز کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ ہوگا
- ملک بھر کے بازاروں میں رمضان پیکج کے تحت سستا آٹا فراہم کیا جائے گا
- نوجوانوں کو مزید لیپ ٹاپس دیے جائیں گے
- بینظیر کارڈ دوبارہ لے کر آئیں گے، پروگرام کو مزید وسعت دی جائے گی
خط کے معاملے میں سچائی ہوئی تو استعفیٰ دے دوں گا،شہباز شریف
نومنتخب وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے سے ڈرامہ چل رہا ہے کہ کوئی خط آیا ہے، کہاں سے آیا ہے، میں نے نہ وہ خط دیکھا نہ مجھے وہ خط کسی نے دکھایا، میں سمجھتا ہوں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میری آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے اس حوالے سے ملاقات 8 مارچ سے کئی دن پہلے ہوئی۔ 3 مارچ کو مسلم لیگ (ن) نے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا اور پیپلز پارٹی نے اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا اور پی ڈی ایم میں ہم یہ معاملہ لے کر گئے اور فیصلہ ہوا کہ یہ قرارداد جمع کرائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے فیصلے بہت پہلے ہو چکے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم اور اس ایوان کے ایک ایک رکن کو حق حاصل ہے کہ حقیقت جاننا چاہتے ہیں تاکہ یہ بحث ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں بطور منتخب وزیراعظم کہتا ہوں کہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی میں ڈی جی آئی ایس آئی اور مسلح افواج کے سربراہوں کی موجودگی میں ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر خط کے معاملے میں ذرہ برابر بھی سچائی ثابت ہوئی تو میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر گھر چلا جاؤں گا۔
مزید پڑھیں:اعصاب کی جنگ اور دورِ عمران کا اختتام
وزیر اعظم شہباز شریف نے مراسلہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ اس خط میں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آئین شکنی کالعدم قرار دینے اور نظریہ ضرورت کو دفن کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جس دن عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا اس دن کو پاکستان کے آئین کی سربلندی کا دن منانا چاہیے۔
معشیت کو پروان چڑھانا ہے تو ڈیڈلاک نہیں، ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، شہباز شریف
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی معشیت کو پروان چڑھانا ہے، جمہوریت اور ترقی کو آگے بڑھانا ہے تو ڈیڈلاک نہیں ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، تقسیم نہیں تفہیم سے کام لینا ہوگا، نہ کوئی غدار تھا ہے نہ کوئی غدار ہے، ہمیں احترام کے ساتھ قوم بننا ہوگا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تبدیلی باتوں سے نہیں آتی، اگر باتوں سے تبدیلی آنی ہوتی تو پاکستان کی معیشت کا اتنا بُرا حال نہیں ہوتا، ملک کی معیشت انتہائی گھمبیر صورتحال سے دوچار ہے، باتوں سے تبدیلی آنی ہوتی تو ہم ایک ترقی یافتہ قوم بن چکے ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے پی ٹی آئی کی حکومت کو میثاق معیشت کی پیش کش کی، انہوں نے ہماری پیشکش کو مسترد کیا، اگر ہماری بات مان لی جاتی تو پاکستان میں ترقی ہوتی اور اس کا کریڈٹ ان کو ملتا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ملک کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو محنت اور محنت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:حکومت کا خاتمہ، پی ٹی آئی کا 13اپریل سے ملک گیر احتجاجی مظاہرے شروع کرنے کا اعلان
شہباز شریف نے کہا کہ اس وقت ملک میں انتہائی گھبیر صورتحال ہے، 60 لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے، کروڑوں لوگ خط غربت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے، کھربوں روپے کے قرض لیے گئے لیکن ایک نیا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا، آج تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہے، مہنگائی عروج پر ہے۔
وزیر اعظم نے خود کو خادم پاکستان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قوم ایک عظیم قوم بنے گی، دنیا میں بھکاریوں کو کون پوچھتا ہے، ہم نے زندہ رہنا ہے تو باوقار طریقے سے خودداری سے جینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آج روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں 8 روپے کی کمی ہوئی، اللہ کا شکر ہے کہ ڈالر کی قدر گری۔
اپنی تقریر کے دوران شہباز شریف نے یکم اپریل سے مزدور کی کم از کم ماہانہ اجرت بڑھا کر 25 ہزار روپے کرنے کا اعلان بھی کیا، اور انہوں نے تجویز دی کہ نجی شعبہ بھی ایک لاکھ تک تنخواہ وصول کرنے والے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کرے۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کو وزرات عظمیٰ سےہٹائے جانے کے خلاف پی ٹی آئی کا ملک گیر احتجاج
انہوں نے ملک بھر میں سستا آٹا فراہم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم رمضان پیکج کے تحت ملک بھر میں سستا آٹا فراہم کریں گے۔
اپنی تقریر کے دوران وزیر اعظم نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس پروگرام کو مزید وسعت دیں گے اور اس کو تعلیمی وظائف کے ساتھ منسلک کریں گے۔
انہوں نے یکم اپریل 2022 سے پینشنرز کے لیے پینشن میں 10 فیصد اضافے کا بھی اعلان کیا۔
پی ٹی آئی دور حکومت میں خارجہ محاذ پر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا،شہباز شریف
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پاکستان کو خارجہ محاذ پر کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، ہم دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو استوار کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں ہمارے اسٹریٹجک پارٹنرز ہمارا ساتھ چھوڑ گئے، ہمارے دوست ممالک ہمرا ساتھ چھوڑ گئے اور کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے ہم بالکل خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔
یہ بھی پڑھیں:گورنر خیبر پختونخوا کا مستعفی ہونے کا فیصلہ، عمران اسماعیل بھی پیروی کیلئے تیار
انہوں نے کہا کہ چین ہمارا دکھ، سکھ کا ساتھی ہے، اس نے ہر عالمی فورم پر ہمارا ساتھ دیا، گزشتہ حکومت نے اس تاریخی دوستی کو نقصان پہنچانے کے لیے جو کچھ کیا وہ ایک تکلیف دہ دستان ہے، ہمیں دکھ ہے پی ٹی آئی حکومت نے کیوں ایسے کام کیے جس سے ہمارا دیرینہ دوست ہم سے دور ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک ۔ چین دوستی لا زوال ہے جو قیامت تک جاری رہیں گے، سی پیک کو پاکستان اسپیڈ سے چلائیں گے، منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھائیں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے تاریخی برادرانہ تعلقات ہیں، جب پاکستان نے نواز شریف کی حکومت میں بھارت کے 5 کے مقابلے میں 6 ایٹمی دھماکے کیے تو پاکستان پر عالمی پابندیاں لگیں تو سعودی عرب نے کہا کہ ہم پاکستان کی مدد کریں گے، ہم آپ کی تیل تمام ضروریات پوری کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرلیا
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کے وزیر خارجہ نے سعودی عرب کے حوالے سے غیر ذمےدارانہ بیان دیا، اس پر ہمیں بہت افسوس ہے، ہم سعودی عرب کے تعاون کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے اور ہم ان کے شکر گزار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ترکی اور پاکستان کے تاریخی تعلقات ہیں، ترکی وہ ملک ہے جس نے کشمیر کی آزادی کی سب سے پہلے حمایت کی، ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، اسی طرح متحدہ عرب امارات، کویت، عمان اور تمام خلیجی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کریں گے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، امریکا سے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔
نومنتخب وزیر اعظم نے کہا کہ امریکا میں پاکستان کی برآمدات اربوں ڈالرز ہیں اور موجودہ دور کی سفارت کاری معاشی طاقت پر منحصر ہے، اگر آپ کی معیشت مضبوط نہیں ہوگی تو آپ کی سفارت کاری مضبوط نہیں ہوسکتی، اس لیے ہمیں اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں لاکھوں پاکستانی آباد ہیں، پاکستان کے برطانیہ کے ساتھ تاریخی تعلقات رہے ہیں، برطانیہ نے چاروں صوبوں میں تعلیم کے لیے فنڈز دیے، برطانیہ کے ساتھ تعلقات آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد پر عالمی میڈیا نے کیا لکھا؟
انہوں نے کہا افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے، وہاں کروڑوں شہری خوراک اور ادویات کی کمی کا شکار ہے، ہمیں ایک آواز ہو کر ہر عالمی فورم پر افغانستان کے شہریوں کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔
نو منتخب وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے جب بھارت کی جانب دوستی اور امن کا ہاتھ بڑھایا تھا تو اس کے ساتھ ساتھ اسی نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے بھر پور آواز اٹھائی تھی لیکن جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو ہم نے اس کے خلاف کیا آواز اٹھائی، کیا کوئی سنجیدہ سفارتی کوشش کی۔
شہباز شریف نے کہا ہم بھارت کے ساتھ پر امن دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل تک خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ہم کشمیر کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے، ہم کشمیر کے لوگوں کی ہر سطح پر سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری کریں گے۔
انہوں نے بھارتی وزیراعظم کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آئیں ہم دونوں ممالک کے مسائل کے حل کےلیے، ان کو غربت اور پسماندگی سے نکالنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کریں۔
انہوں نے کہا ہم فلسطین کے عوام کے حق خود ارادیت اور ان کی آزادی کے لیے آواز ا ٹھاتے رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معروضی حالات کے پیش نظر ہمیں قومی یکجہتی کی جانب بڑھنا ہوگا، اپنے اختلافات کوبھلانا ہوگا.
بعد ازاں کیبنٹ ڈویژن سیکریٹریٹ کی جانب سے شہباز شریف کے بطور وزیر اعظم پاکستان منتخب ہونے کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا گیا تھا۔
پارلیمانی روایات کے برخلاف اجلاس ملتوی
قومی اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے پارلیمانی روایات کے برخلاف اجلاس ملتوی کردیا۔
قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف نے تقریر کی, شہباز شریف کے خطاب کے بعد پینل آف چیئرمین ایاز صادق نے بلاول بھٹو کو خطاب کی دعوت دی۔
بلاول بھٹو زرداری کا خطاب شروع ہونے سے پہلے قاسم سوری اسمبلی میں واپس آئے جس پر ایاز صادق نے اسپیکر کی کرسی چھوڑ دی۔
قاسم سوری نے اسپیکر کی کرسی پر بیٹھتے ہی اجلاس 16 اپریل شام 4 تک ملتوی کر دیا، پارلیمانی روایات کے مطابق قائد ایوان کے انتخاب کے بعد تمام پارلیمانی لیڈر خطاب کرتے ہیں۔
شہباز شریف قوم پر مسلط کیے جا رہے ہیں،شاہ محمود قریشی
اس سے قبل نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے اجتماعی استعفوں کا اعلان کردیا تھا، پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی کے مستعفی ہونے اور اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کے ساتھ شہباز شریف وزیراعظم کے واحد امیدوار تھے۔
قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ملک میں بیرونی سازش ہو رہی ہے جس کا اعتراف پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کر رہی ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آج اس عمل کا حصہ بننا ، اس عمل میں شامل ہونا ایک ناجائز حکومت کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہوگا اور ہم اس گناہ میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔
یہ بھی پڑھیں: ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب، عمران خان 'آؤٹ'
ان کا کہنا تھا کہ میں وزیراعظم کے لیے پی ٹی آئی کا امیدوار تھا، میں اس انتخابی عمل کے بائیکاٹ کا اعلان کرتا ہوں، ہم ایوان کی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کے ایوان سے اجتماعی استعفوں کے اعلان کے ساتھ پی ٹی آئی کے تمام اراکین قومی اسمبلی سیشن کا بائیکاٹ کرکے ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔
پی ٹی آئی کے وزیراعظم کے لیے نامزد امیدوار شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مجھے وزیراعظم کا امیدوار نامزد کرنے پر میں عمران خان اور پی ٹی آئی کی پوری قیادت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی باقی جماعتوں کی نسبت ایک نئی جماعت ہے لیکن ہم نے پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ آج ہمارے مخالفین ہمارے خلاف ایک ہوگئے ہیں لیکن ان کے نظریات میں کوئی ہم آہنگی اور اتفاق رائے نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف اتحاد کرنے والے ماضی میں ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتے رہے ہیں، ایک دوسرے پر بد ترین الزامات لگاتے رہے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات دیتے رہے ہیں، ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے کی بات کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب، عمران خان 'آؤٹ'
شہباز شریف پر تنقید کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں کہ وہ قوم پر مسلط کیے جا رہے ہیں، ایک عارضی بندوبست کر کے جوڑ توڑ کرکے وزیراعظم بننے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ اتحاد اور یہ بندوبست زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔
ان کا کہنا تھاکہ آج 11 اپریل ہے، آج نامزد وزیر اعظم کی عدالت میں پیشی تھی، ان پر آج فرد جرم عائد ہونی تھی، آج اس پیشی سے فرار حاصل کیا جا رہا ہے، اب ان کیسز کو دفن کیا جائے گا، اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو پھر ایک بات اور ثابت ہوجائے گی کہ عوام کے لیے ایک قانون اور خواص کے لیے دوسرا قانون ہے اور اسی نا انصافی کے خلاف پی ٹی آئی معرض وجود میں آئی تھی۔
شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر کے دوران اپنے سابق اتحادیوں پر بھی تنقید کی، ایم کیو ایم سے متعلق انہوں نے کہا کہ اگر انہیں گورنرشپ یا اس طرح کے کچھ عہدوں کی ضرورت تھی تو وہ یہ عہدے پی ٹی آئی سے بھی حاصل کرسکتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:نئے قائد ایوان کا انتخاب، شہباز شریف اور شاہ محمود کے کاغذات نامزدگی منظور
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز پاکستان بھر میں احتجاج کیا، پاکستان کے شہر شہر، قریہ قریہ، گاؤں، گاؤں عمران خان کے حق میں اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے ہوئے، پاکستان بھر میں عوام سڑکوں پر نکلے اور بتادیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے قوم کو خودداری دی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پاکستان کے لیے محنت کی، انہوں نے ملک کی معشیت مستحکم کیا، آج بھی ہم شرح نمو 5 فیصد کے قریب چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان انگریزی بول سکتے ہیں لیکن عالمی سطح پر اپنی قومی زبان میں پاکستان کی نمائندگی کی، وہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تو پاکستان کی ثقافت کا حصہ پشاوری چیپل پہن کر ملے، جب عمران خان روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے روس میں ملے تو پاکستانی لباس شلوار قمیص پہن کر ملے۔
تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کی رولنگ بطور محب وطن پاکستانی دی، قاسم سوری
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا کہنا تھا کہ عدالت نے میری رولنگ غیر آئینی قرار دی تھی اس پر بہت بحث ہوئی تھی، یہ فیصلہ میں نے جن وجوہات پر کیا وہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:قومی اسمبلی سے استعفوں کا حتمی فیصلہ تاحال نہیں ہوا، شاہ محمود قریشی
ان کا کہنا تھاوہ فیصلہ میں نے بطور محب وطن پاکستانی کے طور پر کیا، وفاقی کابینہ، قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں غیر ملکی مراسلہ زیر بحث لایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کی تائید کی گئی کہ وزیر اعظم پاکستان کے خلاف جو عدم اعتماد کی تحریک لائی جارہی ہے وہ ایک غیر ملکی سازش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 اپریل 2022 کو جو وفاقی کابینہ کا اجلاس میں اس میں فیصلہ کیا گیا کہ یہ مراسلا ڈی کلاسیفائیڈ کیا جائے، حکومت کی جانب سے یہ مراسلہ اسد قیصر کو بھیجا گیا اور انہوں نےیہ مراسلہ پڑھا۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا کہنا تھا کہ عدالت نے میری رولنگ غیر آئینی قرار دی تھی اس پر بہت بحث ہوئی تھی، یہ فیصلہ میں نے جن وجوہات پر کیا وہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھاوہ فیصلہ میں نے بطور محب وطن پاکستانی کے طور پر کیا، وفاقی کابینہ، قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں غیر ملکی مراسلہ زیر بحث لایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کی تائید کی گئی کہ وزیر اعظم پاکستان کے خلاف جو عدم اعتماد کی تحریک لائی جارہی ہے وہ ایک غیر ملکی سازش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 اپریل 2022 کو جو وفاقی کابینہ کا اجلاس میں اس میں فیصلہ کیا گیا کہ یہ مراسلا ڈی کلاسیفائیڈ کیا جائے، حکومت کی جانب سے یہ مراسلہ اسد قیصر کو بھیجا گیا اور انہوں نےیہ مراسلہ پڑھا۔
قاسم سوری نے کہا کہ بطور قائم مقام اسپیکر قومی اسمبلی میرے پاس یہ مراسلہ موجود ہے کہ جس میں برملا غرورانہ اور تکبرانہ طور پر پاکستان کو دھمکی دی گئی ہے اور اس میں آقا کی طرف سے یہ کہا گیا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوتی تو پاکستان کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مراسلے میں یہ بات متعدد بار لکھی گئی ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو آپ کو معاف کردیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کیا پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا یہ قصور تھا کہ انہوں نے آزاد خارجہ پالیسی کی بات کی ، آزاد معیشت کی بات، نبیﷺ کی حرمت کی بات کی اور اسلامو فوبیا کا مقدمہ لڑا۔
اسپیکر نے سوال کیا کہ کیا پاکستان ایک آزاد ملک نہیں ہے، علامہ اقبال نے خودی کا فلسفہ دیا تھا جس پر قائد اعظم نے ملک بنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:ملکی تاریخ میں کوئی وزیراعظم اپنی 5 سالہ مدت پوری نہیں کرسکا
ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ ملک غلامی کے لیے بنایا گیا تھا۔، کیا ہم آزاد شہری نہیں ہم،وزیر اعظم عمران کو خودمختار پاکستان کی بات کرنے کی سزا دی گئی۔
انہوں نے اعلان کیا کہ میں یہ مراسلہ قومی اسمبلی کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کو بھیجتا ہوں۔
ان کہنا تھا کہ جو کچھ کیا اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے کیا، میں نے غیر ملکی ایما پر پاکستان کی حکومت کی تبدیلی کو روکا، جو قوم کی عزت، انا، بقا کے خلاف آئین شکنی کے زمرے میں بھی آتی ہے۔
قاسم سوری کا کہنا تھا کہ ہم نے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ من و عن قبول کیا ہے، ہم سب کو بطور پاکستانی اس پر سوچنا چاہیے۔
انہوں نے ایوان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایوان آئین و قانون کو چلانے کی پوری کوشش کی ہے، مجھ سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معافی چاہتا ہوں۔
اجلاس کا ایجنڈا
اس سے قبل اجلاس کا ایجنڈا جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن پاک، نعت رسولﷺ اور قومی ترانے سے ہوا جس کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 91 کے مطابق وزیراعظم کا انتخاب قومی اسمبلی کے قوائد و ضوابط (2007) کے قاعدے 32 کے تحت کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:'پرانے پاکستان میں خوش آمدید': عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر رد عمل
ذرائع کے مطابق نئے منتخب وزیراعظم آج رات عہدے کا حلف اٹھائیں گے، صدر مملکت نئے وزیراعظم سے حلف لیں گے۔
ذرائع کے مطابق حلف برداری کی تقریب رات 8 بجے ایوان صدر میں ہو گی جو پی ٹی وی پر براہ راست نشر کی جائے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی جانب سے اتوار کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے آج قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
دریں اثنا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان قومی اسمبلی کو وزیراعظم کے انتخاب سے متعلق ہدایات کے لیے پارٹی کے سکیرٹری جنرل اسد عمر کی جانب سے خط لکھ دیا گیا۔
خط میں تمام ارکان کو وزیراعظم کے الیکشن کے دوران ایوان میں حاضر ہونے اور شاہ محمود قریشی کو ووٹ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
خط میں ارکان کو ہدایت کی گئی ہے کہ ارکان پارلیمانی اجلاس میں شرکت یقینی بنائیں، پارٹی پالیسی پر عمل نا کرنے والے رکن کے آرٹیکل 63 اے تحت کاروائی ہوگی، خلاف ورزی کرنے والے پارٹی سے برخاست اور قومی اسمبلی کی نشت سے نا اہل کردیا جائے گا۔
کاغذات نامزدگی منظور
گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی ایک بار پھر آمنے سامنے آگئیں جب شہباز شریف اور شاہ محمود قریشی دونوں جماعتوں کے سینئر رہنماؤں پر مشتمل الگ الگ گروپس پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے اور اپنے کاغذات نامزدگی سیکریٹری قومی اسمبلی کو جمع کرائے۔
یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو تبدیل کردیا گیا
اس موقع پر شاہ محمود قریشی اور بابر اعوان، مسلم لیگ (ن) کے رہنما زاہد حامد اور عطا تارڑ کی لفظی جھڑپ ہوئی۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں نے شہباز شریف کے خلاف اعتراضات جمع کرائے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ مؤخر الذکر ایک ایسے دن الیکشن لڑ رہے ہیں جب ان پر منی لانڈرنگ کیس میں متوقع طور پر فرد جرم عائد کی جاسکتی ہے، ان کی رائے تھی کہ وہ بدعنوانی کے مقدمات میں ’ملوث ہونے‘ کی وجہ سے نئے وزیر اعظم بننے کے لائق نہیں ہیں۔
ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے عطا تارڑ نے کہا کہ چونکہ شہباز شریف کسی بھی مقدمے میں سزا یافتہ نہیں ہیں، اس لیے ان کی نامزدگی کو محض الزامات کی بنیاد پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
زاہد حامد نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو یاد دلایا کہ نامزدگی صرف ان بنیادوں پر مسترد کی جا سکتی ہے جس کا ذکر قومی اسمبلی کے آئین اور قواعد و ضوابط اور رولز آف بزنس 2007 میں کیا گیا ہے جس کے تحت وزیر اعظم کے عہدے کے لیے امیدوار کا مسلمان، ایم این اے اور اس کے مستند دستخط ہونا ضروری ہے جبکہ اس کے تجویز کنندہ اور حمایتی کے حقیقی دستخط ہونے چاہئیں۔
اس پر سیکریٹری قومی اسمبلی نے شہباز شریف اور شاہ محمود قریشی دونوں کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے۔
بعد ازاں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے قومی اسمبلی کے اجلاس کا ایجنڈا جاری کر دیا جس کے تحت وزیراعظم کا انتخاب آج دوپہر 2 بجے ہونا ہے۔
استعفوں کے معاملے پر پی ٹی آئی تقسیم
دوسری جانب اراکین اسمبلی کے اجتماعی استعفوں کے فیصلے پر پی ٹی آئی تقسیم نظر آتی ہے۔
پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اتوار کے روز عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اس حوالے سے فیصلہ نہ کر سکی کہ آیا اراکین اسمبلی کے بڑے پیمانے پر استعفے دیے جائیں یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا
آج استعفوں کے حوالے سے مشاورت کے لیے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کا اجلاس آج دوپہر 12 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں بلایا گیا۔
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی سے مستعفی ہونے پر منقسم نظر آئے۔
فواد چوہدری، حماد اظہر، شیخ رشید، علی اعوان مستعفی ہونے کے حق میں ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی، فیصل جاوید، فخر امام سمیت اکثریتی ارکان مستعفی نہ ہونے کے حق میں ہیں۔
گزشہ روز سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ہم استعفیٰ دینے کا آغاز قومی اسمبلی سے کر رہے ہیں، اگر شہباز شریف کے کاغذات پر ہمارے اعتراضات منظور نہیں ہوتے تو کل ہم استعفیٰ دے دیں گے۔
اس موقع پر شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ قومی اسمبلی میں چور اور ڈاکوؤں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے، قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے جارہے ہیں۔
بعد ازاں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ قومی اسمبلی سے استعفوں کے حوالے سے تاحال حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
دریں اثنا ایک اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما استعفوں کے معاملے پر منقسم ہیں کیونکہ ان میں سے کچھ کا خیال ہے کہ پارٹی کے تمام اراکین قومی اسمبلی اور اتحادیوں کو آنے والی حکومت کو مشکل صورتحال سے دوچار کرنے کے لیے فوری طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے، جبکہ دیگر کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کو اگلے عام انتخابات کے لیے انتخابی قوانین خصوصاً الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور سمندر پار پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے حوالے سے کسی بھی کوشش کی مزاحمت کے لیے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:عمران نیازی کے جھوٹ، من گھڑت الزامات، اقتدار کی ہوس کی حد نہیں، شہباز شریف
تاہم پی ٹی آئی کے ناراض رہنما راجا ریاض نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی نے استفے دینے کا انتخاب کیا تو 22 ناراض اراکین استعفیٰ نہیں دیں گے، خیال کیا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے شاہ محمود قریشی کے خلاف ووٹ دیا تو آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت انہیں نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
پس منظر
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر تاخیر کے بعد 3 اپریل کو ووٹنگ متوقع تھی۔
تاہم 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو آئین و قانون کے منافی قراد دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیاتھا۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا فیصلہ: مشترکہ اپوزیشن کا کل یوم تشکر منانے کا اعلان
ایوانِ زیریں کا اجلاس ملتوی ہونے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھجوانے کا اعلان کیا تھا اور قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایت کی تھی ۔
بعدازاں صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے تجویز منظور کرلی تھی۔
اس تمام معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا اور 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں ہفتے کی رات گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تھی جس کے بعد وہ وزیراعظم کے عہدے سے ہٹ گئے تھے۔
قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہونے کے بعد وہ ملک کے پہلے وزیراعظم بن گئے ہیں جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی
تبصرے (3) بند ہیں