فضائی میزبان کی آپ بیتی: عید کے رنگ، لاش کے سنگ
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
ڈاکٹر، پولیس، افواج اور وہ تمام ادارے جن کا کام ‘آپریشنل ڈیوٹی’ کے زمرے میں آتا ہے ان کو عید، شب برات اور بسا اوقات ذاتی تقریبات پر بھی قربانی دینی پڑتی ہے اور نوکری پر آنا پڑتا ہے۔ فضائی میزبانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ قسمت مہربان ہو تو عید گھر پر ہوتی ہے ورنہ دنیا کے کسی اور کونے میں۔
نوکری کے دوسرے سال میری عید لندن میں گزری۔ مجھے پہلے سال بھی لندن کی پرواز پر جانے کا اتفاق ہوا لیکن وہ صرف 24 گھنٹے قیام والی پرواز تھی جس پر ہم شام کو پہنچتے اور اگلی دوپہر واپسی ہوتی تھی۔ مجھے سیاحت کا شوق ہے لیکن آرام زیادہ پیارا ہے۔ معلوم نہیں اچھی جگہ پہنچ کر مجھے اتنی نیند کیوں آتی ہے۔ خیر میں لندن نہیں گھوم سکا تو میں اس پرواز کے لیے کوشش کر رہا تھا کہ جس پر لندن میں 2 دن کا قیام ہوتا تھا۔
عید پر چھٹی کے لیے درخواست دی تو معلوم ہوا عملے کی ایک مخصوص تعداد کو پہلے ہی چھٹی دے دی گئی ہے چنانچہ اپنا سا منہ لے کر واپس آگیا۔ گھر فون کرکے بتایا کہ اس بار بھی عید پر نہیں آسکوں گا۔ پہلے سال بھی عیدیں اسلام آباد میں گزری تھیں۔
قسمت کی دیوی سے ان دنوں کوئی خاص سلام دعا نہیں تھی کیونکہ خواتین کے معاملے میں فطرتاً شرمیلا واقع ہوا ہوں لیکن دیوی اس وقت میری 2 دن لندن میں قیام والی عرضی پکڑے انتظار کررہی تھیں۔ چلتے چلتے مجھے ‘ٹھپہ’ لگنے کی آواز آئی۔ میں نے رک کر اِدھر اُدھر دیکھا، کچھ نظر نہ آیا لیکن آس پاس فون پر پیغام موصول ہوگیا کہ 2 دن قیام والی پرواز کی عرضی منظور کرلی گئی ہے، اور وہ بھی عین عید پر۔
28ویں رمضان کو ہم لندن جا رہے ہیں۔ دل اداسی کی جانب مائل ہونے لگا لیکن میں نے اسے یہ ٹیکا لگایا کہ ہوسکتا ہے لندن میں آج چاند رات ہو۔ ٹیکے نے اپنا کام دکھایا اور یقین مانیں بڑی اچھی پرواز گزری۔ قسمت کی دیوی نے یہاں بھی اپنا کام مکمل کیا اور لندن میں چاند نظر آگیا۔
صبح عید تھی۔ میرے دوست فرخ جو ساتھ ہی پرواز پر آیا تھا، کا فون آیا کہ چلو نماز پڑھنے چلیں۔ میں نے کہا معلوم نہیں مسجد کہاں ہوگی، اور سچی بات ہے کہ ابو اور بھائی کے بغیر عید کی نماز پڑھنے کو دل بھی نہیں کر رہا تھا۔ فرخ نے بتایا ہوٹل کے ساتھ ہی مسجد ہے۔ خیر، پھر ہم تیار ہوئے اور ہوٹل سے نکلیں۔ مسجد قریب نہیں تھی، بلکہ بہت ہی قریب تھی اور ہم نے چلنا شروع کیا تو پورے 20 قدم چل کر مسجد تک پہنچ گئے۔ خطبہ ہوا نماز پڑھی پھر مولانا صاحب نے فارسی میں تقریر کی۔ سوائے ‘خدا’ اور ‘است’ کے کوئی لفظ پلے نہ پڑا۔ پھر سوچا ساری گیم ہی انہیں 2 لفظوں کی ہے۔ ‘خدا است’۔
ہوٹل پہنچے تو ایک ساتھی خاتون کا فون آیا کہ تم لوگ نماز پڑھ کر آگئے ہو تو ‘کریو روم’ (فضائی عملے کے لیے مختص کمرہ جو ہر ہوٹل میں ہوتا ہے) میں آجاؤ۔ وہاں پہنچے تو شیر خرما ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے کہا لندن میں عید پر آپ یہ ‘جوئے شیر خرما’ کہاں سے لے آئیں۔ کہنے لگیں میری بہن یہیں رہتی ہے۔ اس نے تمام عملے کے لیے بھجوایا ہے۔ عید کی نماز پڑھنے کے بعد شیر خرما کھا کر لگا کہ ہاں بھئی واقعی آج عید ہے۔
عید کے دن کی مخصوص روایت کو مدِنظر رکھتے ہوئے سب اپنے اپنے کمروں میں جاکر سو گئے۔ اٹھ کر باہر نکلے اور سنیما کا رخ کیا۔ شاہ رخ خان کی فلم ڈان دیکھی اور عید پر فلم دیکھنے کی ایک اور روایت کو زندہ کیا۔
وقت گزرتا گیا اور میں سینئر ہوتا گیا۔ اب کم از کم ایک عید پر مجھے چھٹی مل جاتی تھی۔ پھر میری شادی ہوگئی اور میں عید پر خود اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پروازوں کے لیے پیش کرنے لگا۔ ارے نہیں، آپ ‘ٹھیک’ سمجھے میں مذاق ہی کر رہا ہوں۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرانے لگی۔ میں نے تاریخ سے عید کی تاریخ پر چھٹی کے بارے میں بات کرنی چاہی لیکن تاریخ مجھے تاریخ پر تاریخ دیتی گئی اور چھٹی نہ ملی۔
اس مرتبہ چاند رات گزار کر علی الصبح گاڑی پک اپ کرنے آگئی۔ لوگ عید کی نماز کے لیے بھی نہ اٹھے تھے کہ میں وردی پہنے ٹورنٹو پرواز کے لیے گھر سے نکل پڑا تھا۔ وہ عید کا سب سے لمبا دن تھا۔
پرواز نے اڑان بھری تو عید کا سورج نکل رہا تھا۔ 15 گھنٹے بعد ٹورنٹو پہنچے تو عید کا سورج سوا نیزے پر تھا۔ ہوٹل پہنچ کر تھوڑا کھانا کھایا اور سو گیا۔ اٹھا تو عید کا سورج غروب ہونے کا سوچ رہا تھا۔ میں نے کہا سورج خیر ہے، کیا سین ہے استاد۔ سورج جو 21 گھنٹے سے شفٹ پر تھا ‘جلتے’ ہوئے کہنے لگا
‘ماما تینوں میں کیا سی اینی لمی فلائٹ کرن واسطے؟’
پھر ہم دونوں ایک دوسرے کو گھورتے رہے۔ آہستہ آہستہ سورج پگھلنا شروع ہوگیا، اور میں بھی اکیلا بیٹھا اسے غروب ہوتا دیکھتا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ میرا دل بھی غروب ہوتا رہا۔ وقت ایسا تھا کہ گھر فون بھی نہیں کرسکتا تھا۔ یہ تہوار خواہ مخواہ جذباتی کردیتے ہیں۔
پھر ایسا بھی ہوا کہ عید کی صبح پیرس سے وطن واپسی تھی۔ کپتان صاحب نے مسافروں کے لیے اعلان کیا کہ پاکستان میں چاند نظر آگیا ہے اور آپ عید صبح گھر پر منائیں گے۔ سب لوگ خوش ہوگئے۔ پرواز اترنے سے پہلے سنیکس سروس تھی۔ سوچا چاند رات ہے کچھ پارٹی ہونی چاہیے۔ اپنے اور ساتھیوں کے لیے سینڈوچ نکالے تو وہ ‘خشک برف’ (ڈرائے آئس) میں پڑے رہنے کی وجہ سے اکڑ کر لاشیں بن چکے تھے۔ اب لاشوں کے ساتھ تو پارٹی نہیں ہوسکتی چنانچہ ان کو اوون کے حوالے کیا۔ تھوڑی دیر بعد ان میں زندگی کی رمق لوٹ آئی اور ہم نے ‘زندہ لاشوں’ کے ساتھ چاند رات منائی۔
سروس کے دوران ایک صاحب نے تیسری مرتبہ سنیک مانگے تو میں نے دل میں سوچا کہ ان سے پوچھوں کیوں بھائی آج عید ہے کیا۔ پھر سوچا واقعی عید تو ہے۔ جب ان کو سجی سجائی ٹرے دینے لگا تو کہنے لگے کچھ ‘الگ نہیں آپ کے پاس’۔ دل تو کچھ اور کیا لیکن اس وقت ٹرالی کے آخر میں ایک ‘لاش’ پڑی تھی۔ ان کو وہ دکھا کر کہا دیکھیں سر یہ کھانا عملے کے لیے آتا ہے۔ آپ کو پسند ہو تو یہ کھا لیں۔ انہوں نے پلاسٹک کوور کے اوپر سے لاش کی سختی محسوس کی، میرے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا اور ‘تیسری’ ٹرے خالی کرنے میں مصروف ہوگئے۔
لاش سے یاد آیا ایک مرتبہ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں عید قرباں کے موقع پر قیام تھا۔ کمرے میں پہنچ کر سامان رکھا، وردی اتاری اور ہاتھ منہ دھو کر جو تولیہ پکڑا تو اس کو دیکھتے ہی میرا جسم مشہور رقاصہ ہیلن کی مانند تھرک کر رہ گیا۔ تولیے پر جمے ہوئے خون کے بھورے رنگ کے دھبے تھے۔
میں نے جلدی سے اپنی مابعد المیراثیاتی طبعیت پر قابو پایا اور دھرمیندر بننے کی ناکام کوشش کی۔ لاش کی تلاش میں جس دم میں شاور کا پردہ ہٹانے والا تھا اس لمحے الفریڈ ہچکاک کی ساری فلموں کے خوفناک میوزک اور خوبصورت ہیروئینیں میرے دماغ میں گھوم رہے تھے۔ شکر ہے ٹب میں لاش نہیں تھی۔ بیت الخلا سے باہر نکل کر بیڈ کا جائزہ لیا تو اس پر بھی وہی نشان تھے۔
استقبالیہ پر فون کرکے بتایا تو ہوٹل میں تھرتھلی مچ گئی۔ تھوڑی دیر میں ڈیوٹی منیجر عملے کے ساتھ آگئے اور خونی تولیے کا جائزہ لینے لگے۔ معذرت کی اور کہنے لگے یہ لانڈری مشین سے دھلنے کے دوران کسی زنگ آلود پرزے سے لگنے والے نشانات ہیں۔ میں نے کہا چلیں مان لیا لیکن عید کے موقع پر آپ نے جو میرا ‘تراہ’ بطریق احسن نکلوا دیا اس کا کیا کرنا ہے۔ پھر معذرت کی اور اعزازی طور پر شام کی چائے اور ‘سینڈوچ‘ بھجوانے کا وعدہ کیا۔ شکر ہے شام کو آنے والے سینڈوچ بہت اچھے تھے اور یوں میں وہ عید کسی لاش کے ساتھ منانے سے بچ گیا۔
تبصرے (1) بند ہیں