برطرفی سے قبل حکومت کی جانب سے ڈیزل کی قیمت کے میکانزم میں تبدیلی
سابق وفاقی کابینہ نے تحلیل ہونے سے ایک روز قبل ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) کی قیمت کے میکانزم کو تبدیل کرنے کی منظوری دی تھی تاکہ طویل المدتی سپلائر کویت پیٹرولیم کمپنی (کے پی سی) کے مستقل مذاکراتی پریمیم کو ہائر مارکیٹ کے اوسطاً وزن کے مطابق تبدیل کیا جاسکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ کی جانب سے یہ تبدیلی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اس سے قبل کے گئے فیصلے کے پیش نظر کی گئی تھی، تاکہ عالمی مارکیٹ میں ڈیزل کی کمی کے دوران ملک میں اس کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔
تبدیلی کے ذریعے اسپاٹ ٹریڈرز کو پاکستانی درآمد کنندگان سے چارج کیے جانے والے پریمیم میں تین ماہ کی عبوری مدت اپریل سے جون کے لیے اضافی ادائیگی کی اجازت دی گئی تھی۔
پیٹرولیم ڈویژن اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو بھیجے گئے ایک پیغام میں کابینہ ڈویژن نے وفاقی کابینہ کے ذریعے ای سی سی کے فیصلے کی ’توثیق‘ سے آگاہ کیا جس میں اس فیصلے پر عمل درآمد کی ہدایت کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: خام تیل، ایچ ایس ڈی کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کے خاتمے کا امکان
ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوگرا سے مشاورت کے بعد کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ اپریل سے جون 2022 تک کے لیے کے پی سی کے پریمیم کو ایچ ایس ڈی کی قیمت سے نکالا جائے۔
گزشتہ 15 روز کے لیے ایچ ایس ڈی کی درآمد پر وصول کیے جانا والا پریمیم، پاکستان اسٹیٹ آئل کے اوسطاً ٹینڈر پریمیمز کے مطابق تھا۔
آئندہ 15 روز کے لیے پی ایس او کے پاس کوئی ٹینڈر نہیں ہے جس کی وجہ سے ایچ ایس ڈی کی سابقہ ریفائنری قیمت کے لیے سابقہ ٹینڈر کا استعمال کیا جائے گا۔
تاہم توقع ہے کہ مذکورہ انتظامات سے پی ایس او اور مقامی ریفائنریز کو کچھ فائدہ پہنچ سکے۔
کابینہ ڈویژن کا کہنا تھا کہ ’اوگرا کے کہنے پر ہر 15 روز میں اس میکانزم پر نظر ثانی کی جائے گی‘۔
مزید پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10 روپے تک فی لیٹر اضافے کا امکان
موجودہ انتظامات کے مطابق پی ایس او اسپاٹ ٹینڈرنگ کے ذریعے پیٹرول درآمد کرتا ہے جبکہ ایچ ایس ڈی طویل مدتی معاہدے کے ذریعے کے پی سی سے درآمد کیا جارہا ہے جس پر سال میں دو بار نظر ثانی کی جاتی ہے۔
طویل المدتی بنیاد پر پریمیم ٹینڈر کے پریمیم سے کم ہے۔
فی الحال جنوری سے جون کے لیے پی ایس او کے ایچ ایس ڈی کارگوز کے لیے کے پی سی پریمیم 2.40 ڈالر فی بیرل ہے تاہم کے پی سی، پی ایس او کی ڈیزل کی مانگ کو پورا کرنے سے قاصر ہے تو اضافی درآمدات اسپاٹ مارکیٹ سے منگوائی جاتی ہیں۔
پی ایس او دونوں ذرائع کے پی سی اور اسپاٹ مارکیٹ سے خریداری کرتا ہے، تو کے پی سی اور اسپاٹ پریمیم کا اوسط وزن صارفین کے لیے قیمتوں کا حساب لگانے کے لیے بینچ مارک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) نے حکومت کو مطلع کیا تھا کہ صنعت کے لیے ایچ ایس ڈی پریمیم تاریخی طور پر پی ایس او کے مقابلے زیادہ تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ صنعت پی ایس او کے بینچ مارک پریمیم کے مقابلے نسبتاً زیادہ پریمیم پر ایچ ایس ڈی درآمد کر رہی ہے، جس کی وجہ سے باقی او ایم سیز کو نقصان ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئل کمپنیوں نے حکومت، اوگرا کو ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قلت کے خدشے سے خبردار کر دیا
موجودہ جغرافیائی سیاسی حالات کے سبب یہ فرق اب نمایاں طور پر بڑھ چکا ہے۔
مارچ کے اختتامی 15 ایام کے لیے پی ایس او کا ٹینڈر 8.45 ڈالر فی بیرل تھا جبکہ اوپن مارکیٹ میں پریمیم اس سے بھی زیادہ ہیں، اس وقت صورتحال یہ تھی کہ پی ایس او کو اپریل کے پہلے پندرہ دن کے لیے ان کے ایچ ایس ڈی ٹینڈر میں کوئی پیشکش موصول نہیں ہوئی اور اس کے بعد کا ٹینڈر 12 ڈالر فی بیرل ہوگیا تھا۔
کے پی سی سے درآمد کیے جانے والے پی ایس او کے ایچ ایس ڈی کی موجودہ قیمت کی 2.4 ڈالر فی بیرل کی بنیاد پر بنچ مارک کی گئی تھی، اس لیے پی ایس او کے ٹینڈر پریمیم 8.45 فی بیرل پر درآمد کرنے والی کسی بھی آئل مارکیٹنگ کمپنی کو 6 روپے تک نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے بینچ مارکنگ کے عمل پر فوری نظرثانی کی ضرورت ہے، پیٹرولیم ڈویژن نے استدعا کی تھی کہ او ایم سیز، ایچ ایس ڈی کی درآمد کرنے سے قاصر ہوں گی جس کی وجہ سے ملک بھر میں ممکنہ قلت پیدا ہو جائے گی۔