نیٹو کا اپنی سرحدوں پر مستقل فوج تعینات کرنے کا منصوبہ
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ نیٹو مستقبل میں روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں اپنی سرحدوں پر مستقل فوج تعیناتکرنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' نے دی ٹیلی گراف کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ نیٹو کی خاص طور پر مخصوص اور متعین شدہ ملٹری-فورس سرحدوں کا دفاع کرنے کے لیے تعینات کی جائے گی۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ نیٹو پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی کرنے جا رہا ہے جو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے اقدامات کے 'طویل مدتی نتائج' کی عکاسی کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں:نیٹو اور روس کے درمیان براہ راست جھڑپ تیسری عالمی جنگ ہوگی، جو بائیڈن
جینز اسٹولٹن برگ نے کہا کہ جو صورت حال ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں وہ ایک نئی حقیقت ہے، وہ یورپی ممالک کی سلامتی کے لیے اب ایک معمول کی بات ہے، اور اس مقصد کے لیے ہم نے اپنے فوجی کمانڈروں سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ہمیں آپشنز فراہم کریں جس کے ساتھ ہم نیٹو کی طویل مدتی پالیسی کا دوبارہ تعین کر سکیں۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے اپنی مدت کے حوالے سے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ اتحاد کے سربراہ کے طور پر اپنی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کریں گے۔
اسٹولٹن برگ کا انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی پالیسی ری سیٹ کے بارے میں فیصلے جون میں میڈرڈ میں ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس میں کیے جائیں گے۔
رپورٹس کے مطابق یوکرین پر روس کے حملے نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یورپ کے سب سے بڑے مہاجرین کے بحران کو جنم دیا ہے اور مغربی ممالک کو اپنی دفاعی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں:روسی صدر کو اندازہ نہیں آگے کیا ہونے والا ہے، جو بائیڈن
واضح رہے کہ 24 فروری کو روس کی جانب سے شروع کیے گئے حملوں نیتجے میں یوکرین کے لاکھوں لوگوں اپنے گھروں سے بے دخل ہوگئے ہیں، کئی شہر ملبے میں تبدیل ہوگئے ہیں اور حملوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔
شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے باعث روس کو بین الاقوامی سطح پر مذمت اور نئی پابندیوں کا سامنا ہے، خاص طور پر کیف کے شمال مغرب میں سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں جہاں صرف ایک ہفتہ قبل ہی روسی افواج نے قبضہ کیا تھا۔
روس نے یوکرین اور مغربی ممالک کی جانب سے جنگی جرائم کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے، اس نے عام شہریوں کو نشانہ بنانے سے انکار کیا
روس اس کارروائی کو اپنے پڑوسی ملک کو عسکری طاقت سے محروم کرنے کے لیے خصوصی آپریشن قرار دیتا ہے۔