سری لنکن صدر کو سب سے بڑے احتجاج کا سامنا
ملکی کی معیشت اور سیاسی بحران کے پیش نظر مشکلات سے دو چار لاکھوں سری لنکن شہریوں نے تاریخی احتجاج کرتے ہوئے صدر گوٹابایا راجا پاکسے کے دفتر کا رخ کرلیا۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق 2 کروڑ 20 لاکھ سری لنکن شہریوں کو کئی ہفتوں سے بجلی کی معطلی، خوراک، ایندھن اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا ہے، یہ 1948 میں سری لنکا کی آزادی کے بعد شدید معاشی بحران ہے۔
رپورٹرز کے مطابق گزشتہ ماہ سے بڑھتے ہوئے بحران کے بعد ہفتے کو سوشل میڈیا کے توسط سے کیے گئے احتجاج میں بڑی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: سری لنکا میں احتجاج کے بعد سوشل میڈیا کی بندش
ملک کی طاقتور کاروباری برادری کی جانب سے صدر کی حمایت سے دستبردار ہونے کے بعد راجا پاکسے پر دباؤ میں شدید اضافہ ہوا ہے۔
کولمبو کے سمندر کنارے بڑی تعداد میں خواتین اور مردوں نے احتجاج کیا اور قومی پرچم لہراتے ہوئے ’گو گوٹا ہوم‘ کے نعرے لگائے۔
خیال رہے کورونا وائرس کے بعد سری لنکا مسلسل بحران میں مبتلا ہے اور شہریوں کی جانب سے صدر سے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور احتجاج کے سبب صدر کے دفتر کی سیکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
5 اپریل کو سری لنکن وزارت دفاع کے سیکریٹری کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ سیکیورٹی فورسز تشدد میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گی۔
یہ بھی پڑھیں: معاشی بحران پر عوامی احتجاج کے پیش نظر سری لنکا میں کرفیو نافذ
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا کہنا ہے کہ اس نے سری لنکا کی بگڑتی صورتحال پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے، جبکہ ملک کو پہلے ہی انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ کے باعث عالمی سنسرشپ کا سامنا ہے۔
یو این ایچ آر سی کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ سری لنکا میں موجودہ صورتحال کے دوران عسکری حل کی جانب رجحان اور ادارہ جاتی چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے کمزور ہونے نے معاشی بحران سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی ریاست کی صلاحیت کو متاثر کیا۔