قومی کرکٹ ٹیم کے ساتھ گزرے رمضان اور عید کی یادیں
ہر مذہب کے ساتھ جڑے عقائد اور روایات میں ایک اہم جز مذہبی تہواروں اور جشن کا بھی ہوتا ہے۔ کرسمس ہو یا دیوالی، ہولی یا دسہرہ یا پھر ہم مسلمانوں کی عیدیں اور رمضان، یہ انسان کی زندگی کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔
ہم عید، بقر عید، اور رمضان اپنے رشتے داروں اور احباب کے ساتھ مل کر مناتے ہیں لیکن جب اپنے قریبی دوست احباب اور رشتے داروں سے دُور غیر ملک میں اس قسم کا تہوار آتا ہے تو شدت سے اپنا گھر اور احباب یاد آتے ہیں۔
میں ان حالات کا ذکر کررہا ہوں جب ہم مجبوری میں یادوں کے سہارے ہی یہ تہوار مناتے ہیں، یعنی جب ہماری کرکٹ ٹیم کے بیرونی دوروں کے دوران رمضان کا مہینہ یا پھر عید کا تہوار آجائے۔ ایسے میں ہم صرف اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں سے ہی گلے مل کر عید مناتے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کی کمی محسوس کرتے ہیں۔
میری زندگی میں بھی ایسے کئی مواقع آئے۔ اس حوالے سے مجھے رمضان المبارک میں پیش آنے والا ایک اہم واقعہ یاد آرہا ہے۔ 89ء-1988ء میں جب قومی ٹیم عمران خان کی قیادت میں نیوزی لینڈ کے دورے پر گئی تو آکلینڈ ٹیسٹ میں پاکستان نے بیٹنگ کرتے ہوئے 5 وکٹوں کے نقصان پر 616 رنز بنالیے اور نیوزی لینڈ کے باؤلروں کی بہت پٹائی کی۔ اس میچ میں جاوید میانداد نے 271 اور شعیب محمد نے 112 رنز بنائے۔
میں اس وقت ٹی وی نیوزی لینڈ کا کمنٹیٹر تھا۔ میرے ساتھ برطانیہ کے مشہور کمنٹیٹر ہنری بلوفیلڈ تھے جو اکثر خواتین کے بُندوں اور بالوں پر کمنٹ کرتے تھے۔ میں نے کمنٹ کرتے ہوئے کہا کہ جاوید میانداد ان چند بلے بازوں میں سے ہیں جو اکثر رمضان کے مبارک مہینے میں روزہ رکھ کر کھیلتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ روزہ رکھتے ہوئے ہی وہ زبردست بلے بازی کررہے ہوں۔
میرا یہ کہنا ہی تھا کہ میرے کان میں ٹی وی نیوزی لینڈ کے پروڈیوسر ڈاک ولیم کی آواز آئی جو بلوفیلڈ بھی سن رہے تھے۔ وہ بلوفیلڈ سے کہہ رہے تھے کہ اس اوور کے اختتام پر قمر سے رمضان کی اہمیت اور فلسفے پر بات کرو۔
جیسے ہی اوور ختم ہوا تو بلوفیلڈ نے مجھ سے رمضان کی اہمیت پر سوال کردیا۔ اس وقت پوری دنیا ہمیں سن رہی تھی۔ میں جب رمضان المبارک اور روزہ رکھنے کی اہمیت بیان کرچکا تو بلوفیلڈ نے یہ سب کچھ سننے کے بعد کہا کہ ’قمر، اس کا مطلب ہے کہ رمضان میں دنیا بھر کے مسلمان 30 دن فاقہ کرتے ہیں اور شام کو کھاتے پیتے ہیں؟‘ یہ کمنٹ سنتے ہی پروڈیوسر نے بہت ہی سخت انداز میں بلوفیلڈ کو ڈانٹا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہنری، تمہیں قمر احمد نے تفصیل سے رمضان کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ ایک عبادت کا مہینہ ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ مسلمان فاقہ کرتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ ’Don't insult Islam، کیونکہ تمام اسلامی ممالک کے لوگ یہ چینل دیکھ رہے ہیں‘۔ یہ سن کر ہنری بلوفیلڈ کا منہ اتر گیا۔
جب ٹی ٹائم ہوا تو میں نے ہنری کو یہ بھی بتایا کہ رمضان کے بعد ہم عید بھی مناتے ہیں ویسے ہی جیسے عیسائی اپنے تہوار کرسمس یا ایسٹر مناتے ہیں۔ اس دورے میں پاکستانی ٹیم نے عید بھی نیوزی لینڈ میں ہی منائی۔
اسی طرح 1979ء میں پاکستانی ٹیم ٹیسٹ سیریز کھیلنے بھارت کے دورے پر گئی تو بینگلور ٹیسٹ میں بقر عید کا دن آگیا۔ اس خوبصورت شہر میں ٹیم کے ممبران عید گاہ بھی گئے اور نماز بھی پڑھی۔ میرے ساتھ کراچی کے مشہور فوٹوگرافر فاروق عثمان بھی تھے۔ نماز کے بعد وہ مجھے اپنے رشتہ داروں کے گھر قربانی میں شامل ہونے کے لیے لے گئے اور پھر ضیافت بھی ہوئی۔
89ء-1988ء کے دوران جب میں ویسٹ انڈیز کے دورے پر تھا تو بارباڈوس ٹیسٹ میں عید الفطر کا دن آگیا۔ میرے دوست حسین احمد اس جزیرے میں ایک پاکستانی بینکر تھے۔ وہ مجھے عید کی نماز پڑھنے گراؤنڈ کے قریب ہی لے گئے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ وہاں پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی بھی تھے اور بیرونِ ملک سے آئے سیاح بھی۔
93ء-1992ء میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا، ٹیم وسیم اکرم کی کپتانی میں ویسٹ انڈیز کے دورے پر تھی اور ٹرینیڈیڈ ٹیسٹ میں عید کا دن آگیا۔ یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ٹرینیڈیڈ کی مسجد کا نام قائدِاعظم محمد علی جناح کے نام پر تھا۔ تقریباً پوری ٹیم وہاں عید کی نماز میں شریک ہوئی جو مقامی لوگوں کے لیے خوشی کا باعث تھا۔
اب تو یہ سب معمول سا بن گیا ہے اور سفر میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کبھی رمضان یا عید الفطر آ ہی جاتے ہیں۔ ایک حالیہ دورہ انگلینڈ میں اولڈ ٹریفورڈ کے میچ کے دوران عید کا دن آگیا۔ وہاں موجود نمازیوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب سابق پاکستانی کپتان سرفراز احمد جو حافظِ قرآن بھی ہیں انہوں نے خطبہ دیا اور نماز بھی پڑھائی۔ پاکستانیوں کو یہ بات بہت پسند آئی اور اسے میڈیا نے بھی سراہا۔
ایک بار نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی تاجر شاہ صاحب نے مجھے عید کے دن دعوت پر مدعو کیا اور کہا کہ کسی پاکستانی کھلاڑی کو بھی ساتھ لے آئیں۔ میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے موجودہ چیئرمین رمیز راجا کو اپنے ساتھ لے گیا۔ اس پاکستانی تاجر کے اسٹور میں نیوزی لینڈ کے وکٹ کیپر ایڈم پرورے کی ماں منیجر تھی۔ شاہ صاحب نے بڑا زبردست انتظام کیا ہوا تھا۔ رمیز راجا کی موجودگی کو مہمانوں نے بہت ہی سراہا اور خوش بھی ہوئے کہ کوئی پڑھا لکھا کھلاڑی ان کے درمیان کرکٹ کے بارے میں بات کررہا ہے۔
کھلاڑی ملک میں ہوں یا بیرونِ ملک اپنوں سے دُور، رمضان اور عید جیسے تہوار پاکستانی ٹیم کی تاریخ اور روایت کا ہمیشہ کے لیے حصہ بن ہی جاتے ہیں۔