منحرف اراکین کو تاحیات نااہل ہونا چاہیے تاکہ پاکستان کا سیاسی نظام مستحکم ہو، اسد عمر
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی سزا کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا ہے ہم اسی لیے عدالت میں آئے ہیں کہ منحرف اراکین کو تاحیات نااہل ہونا چاہیے تاکہ پاکستان کا سیاسی نظام مستحکم ہو۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی منظوری سے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے پارٹی کے 20 منحرف ارکان کے خلاف ریفرنسز اسپیکر آفس میں جمع کروا دیے۔
ریفرنس میں مذکورہ ارکان کو تاحیات نااہل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بعد ازاں اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہم نے پارٹی سے منحرف اراکین کو نوٹس جاری کیا تھا، ان میں سے کچھ اراکین نے جواب دیا جبکہ کچھ نے نہیں دیا، جنہوں نے جواب دیا ان کا جواب بھی تسلی بخش نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ منحرف اراکین سے متعلق آئین کے آرٹیکل 63 اے میں واضح لکھا ہوا ہے کہ اگر پارٹی کے سربراہ کو یہ نظر آئے کہ کوئی رکن منحرف ہوگیا ہے تو اس کے خلاف اسپیکر کے پاس ریفرنس دائر کیا جاتا ہے پھر وہ الیکشن کمیشن بھیج دیا جاتا اور الیکشن کمیشن اس پر فیصلہ کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: اسد عمر کا سندھ بلدیاتی ترمیمی بل کے خلاف عدالت جانے کا اعلان
انہوں نے کہا کہ اگر فلور کراسنگ کی جاتی ہے تو آئین کے تحت رکن کو نااہل کردیا جاتا ہے، لیکن آئین میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ اس کی سزا کتنے عرصے تک ہوگی، اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر چکے ہیں۔
اسد عمر نے کہا کہ یہ نا اہلی تاحیات ہونی چاہیے تاکہ پاکستان کا سیاسی نظام مستحکم ہو اور جو پارٹی کے نام پر ووٹ لے کر اسمبلی جاتے ہیں وہ امانت میں خیانت نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم پاکستان نے تحریک انصاف کے مرکزی پارلیمانی ووٹ کا اجلاس طلب کیا ہے اس کا اجلاس کل ہوگا اور ہم اب ٹکٹ دینے جارہے ہیں، الیکشن میں 89 روز رہ گئے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ وہ لوگ جو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے اپنی تیاری مکمل کرسکیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں آئین کے درس دیے جارہے ہیں، پتا نہیں آئین کی وہ کون سی شق ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ آپ پیسہ دے کر بلکہ حرام کا پیسہ دے کر لوگوں کی وفاداریاں خرید سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: کراچی کو ٹھیک کرنے کے لیے قابض پیپلز پارٹی کو فارغ کرنا پڑے گا، اسد عمر
ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو ہمارے اراکین قومی اسمبلی ہمیں براہِ راست بتا رہے تھے کہ انہیں پیسوں کی پیش کش کی گئی ہے، لیکن کل تو ایک صحافی نے بھی ٹوئٹ کی کہ پاکستان تحریک انصاف کی ایک منحرف خاتون رکن نے کہا کہ یہ سب باتیں تو آپ کی ٹھیک ہیں لیکن 23 کروڑ روپے سے میری زندگی اچھی گزر جائے گی۔
جنرل سیکریٹری پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہمارا بیانیہ یہ ہے کہ ایک نئے الیکشن کے ذریعے عوام کے پاس جانا چاہیے، جس طرح گزشتہ 24 گھنٹے میں ہم نے عوام کا جوش و ولولہ دیکھا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کہاں کھڑے ہوئے ہیں لیکن اس کا ایک آئینی طریقہ انتخابات ہی ہیں۔
اسد عمر نے کہا کہ امید ہے کہ عدالت بھی وہ ہی فیصلہ کرے گی جس سے ملک میں انتشار نہ پھیلے اور جو جمہوریت ہم نے بڑی مشکل سے حاصل کی ہے وہ پٹڑی پر ہی رہے۔
انہوں نے کہا سیاسی جماعتوں کو بھی اس سے اتفاق کرنا چاہیے وہ سیاسی جماعتیں جو پورے ملک کو بتاتے رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت ختم ہوگئی ہے، پی ٹی آئی کا ٹکٹ کوئی نہیں لے گا، اب میدان میں آئیں اور مقابلہ کریں، میدان بھی حاضر ہے اور گھوڑا بھی، آئیں ہمارے ساتھ مقابلہ کریں، ڈر کیوں رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: اسد عمر کی پرانی ویڈیو کو شیئر کرنے والے صحافی کو تنقید کا سامنا
اسد عمر نے کہا کہ جس پارٹی اور جس لیڈر کو عوام منتخب کرے گی، ہمیں عوام کا فیصلہ منظور ہوگا۔
ایاز صادق کی جانب سے قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرنے سے متعلق سوال پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ یہ بالکل کھلم کھلا غیر آئینی طریقہ کار تھا، یہ ہم نے نہیں کہا یہ سپریم کورٹ نے کہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے فوری بعد وزیر اعظم کی تجویز پر صدر نے اسمبلی تحلیل کردی تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہم اور دیگر اراکین قومی اسمبلی نہیں ہے، مجھے افسوس ہوا ایاز صادق خود ایک ذمہ دار شخص ہیں اور خود اسپیکر رہ چکے ہیں انہوں نے یہ کیا ہے۔
اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد منحرف اراکین سے متعلق کارروائی پر اسد عمر نے کہا کہ یہ آئین کا حصہ ہے جس پر ہم عمل درآمد کر رہے ہیں، آئین میں لکھا ہے کہ اگر پارٹی کا سربراہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کا کوئی رکن منحرف ہوچکا ہے تو وہ ریفرنس بھیج کر اسے نا اہل قرار دے سکتا ہے۔