عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانا سب سے بڑی عالمی سازش تھی، چوہدری سرور
سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانے کے فیصلے پر ایک جانب عمران خان تھے اور دوسری جانب پوری تحریک انصاف تھی، میں آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی عالمی سازش ہے تو سب سے بڑی سازش عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانا تھی۔
لاہور میں چوہدری محمد سرور نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ملک بھر میں اور پنجاب میں ہر حلقے میں جاکر تحریک انصاف کے لیے جلسے کیے اور عمران خان کو ملک کا وزیر اعظم بنوایا۔
انہوں نے کہا کہ میں، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، علیم خان وزارت اعلیٰ کے لیے امیدوار تھے، فواد چوہدری بھی وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے لیکن عمران خان نے فیصلہ کیا کہ صرف عثمان بزدار ہی نیا پاکستان بنا سکتا ہے، اس فیصلے کے باوجود ہم نے اپنے جذبات پر کنٹرول کیا۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کردی
چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان نے دیکھا کہ نئے پاکستان میں پنجاب میں کیا تماشے ہوئے اور عثمان بزدار کس طریقے سے نیا پاکستان بناتا رہا، پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود پی ٹی آئی ورکرز اس انتخاب پر آہیں بھر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ہر 3 مہینے بعد آئی جی، چیف سیکریٹری بدلا جاتا رہا اور ملازمتیں بکتی رہیں، ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کے پیسے دے کر اے سی اور ڈی سی لگ رہے ہوں۔
سابق گورنر پنجاب نے کہا کہ اس فیصلے پر ایک جانب عمران خان تھے اور دوسری جانب پوری تحریک انصاف تھی، میں آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی عالمی سازش ہے تو سب سے بڑی سازش عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانا تھا۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد آئین کے منافی، قرار داد مسترد
انہوں نے کہا کہ آج پورے پنجاب میں سڑکیں ٹوٹی پھوٹی پڑی ہیں، نچلی سطح پر رشوت کئی گنا بڑھ گئی ہے، لیکن ہم اپنے دل پر پتھر رکھ کر عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کا فیصلہ ہوا، تحریک انصاف کے 184 لوگ ہیں جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم پی اے بنے، ان میں سے عمران خان کو ایک بھی بندہ پسند نہیں آیا جسے وہ وزیر اعلیٰ بنا سکیں، انہوں نے ایک ایسے شخص کو نامزد کیا جو پی ٹی آئی کا حصہ ہی نہیں ہے۔
چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے 184 اراکین اسمبلی کے منہ پر طمانچہ ہے کہ ایک ایسے شخص کو نامزد کیا گیا جو ساڑھے 3 سال سے تحریک انصاف کو بلیک میل کرتا رہا، اس نے اپنے انٹرویوز میں وزیر اعظم کا تمسخر اڑایا، وزیر اعظم اس شخص سے بلیک میل ہوئے جس کے پاس اسمبلی میں 9 ایم پی اے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سڑکوں پر نکل کر سازش کے خلاف احتجاج کریں، وزیراعظم کی نوجوانوں سے اپیل
انہوں نے کہا کہ مجھ پر یہ الزام لگایا کہ میں اپوزیشن کے کہنے پر اسمبلی کا اجلاس جان بوجھ کر مؤخر کر رہا تھا، میں آج یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری وزیرا عظم سے 2 ملاقاتیں ہوئیں، مجھ سے وزیر اعظم نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہر صورت میں 3 اپریل کے بعد ہونا چاہیے لیکن میں نے پرویز الہٰی کو یہ بات نہیں بتائی۔
ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی مجھ سے ناراض ہوئے کہ میں نے اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا، میں اجلاس تب بلاتا جب میرے پاس استعفیٰ آتا۔
سابق گورنر پنجاب نے بتایا کہ 2 اپریل کو انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ آج ہی استعفیٰ منظور کرو اور اجلاس بلاؤ، میں وزیر اعظم کے پاس گیا، انہوں نے کہا کہ استعفیٰ منظور کرو میں نے کہا ٹھیک ہے، پھر انہوں نے ایک کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا جس پر 2 اپریل کو اجلاس بلانے کا حکم درج تھا، میں نے انہیں کہا کہ میں نے ساری زندگی کبھی غیر قانونی کام نہیں کیا، مجھ سے رات کے اندھیروں میں اجلاس نہ بلوائیں، یہ گناہ نہ کروائیں، اگر آپ اسے ضروری سمجھتے ہیں تو مجھ سے استعفیٰ لے لیں میں تیار ہوں۔
مزید پڑھیں: چوہدری سرور برطرف، عمر سرفراز چیمہ گورنر پنجاب مقرر
انہوں نے کہا کہ نے وزیراعظم سے علیحدگی میں ملاقات کی اور ان سے کہا کہ پرویز الہٰی ہمیں 3 سال سے بلیک میل کر رہا ہے، میرا دل نہیں کرتا اسے سپورٹ کرنے کو لیکن آپ کے کہنے پر میں یہ بھی کرنے کو تیار ہوں، میں نے رات کے اندھیرے میں اس پر دستخط کیے اور پھر رات کے اندھیرے میں مجھے ہٹا دیا گیا۔
چوہدری سرور نے کہا کہ مجھے دکھ ہے کہ پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے، میں نے جب (ن) لیگ سے استعفیٰ دیا تو کبھی ان کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں کی، پی پی پی والے بھی میرے کردار کے بارے میں کبھی غلط بات نہیں کرتے، میں نے پچھلے 2 برسوں میں 10 بار استعفیٰ دینے کی کوشش کی، جو کچھ پنجاب میں ہو رہا تھا اسے دیکھ کر میں تکلیف میں تھا، میں لڑ کر نہیں پیار سے جانا چاہتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں گالم گلوچ کی سیاست نہیں کرتا، یہ بات پی ٹی آئی کے دوست بھی جانتے ہیں لیکن اگر انہوں نے گالم گلوچ کی تو میں اینٹ کا جواب پتھر سے بھی دینا جانتا ہوں، میرے سینے میں جو راز ہیں وہ بھی آئیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی کا اجلاس ملتوی، نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب کل ہوگا
ان کا کہنا تھا کہ رات کو مجھے کال آئی کہ پرویز الہٰی ہار رہا ہے، اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیں، میں نے کہا کہ صبح 10 بجے میں وکلا سے مشورہ کروں گا، اگر انہوں نے کہا کہ یہ غیر آئینی ہے تو میں یہ مان لوں گا۔
سابق گورنر پنجاب نے کہا کہ مجھے خطرہ ہے کہ کل کو اخباروں میں یہ نہ آجائے کہ چوہدری سرور بھی عالمی سازش کا حصہ ہے، میں یہ واضح کردوں کہ کوئی ملک تنہا ساری دنیا سے ٹکر نہیں لے سکتا، امریکا بھی ٹکر نہیں لے سکتا، ہمیں اپنی حد میں رہنا چاہیے، آزاد خارجہ پالیسی ہر ملک کا حق ہے لیکن یورپی یونین ہمارا اہم تجارتی اور معاشی پارٹنر ہے جن کے ساتھ ہمیں اپنے تعلقات اچھے رکھنے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے بعد امریکا بھی ہمارا اہم تجارتی پارٹنر ہے، ہم روس ضرور جائیں لیکن امریکا سے ہم اپنے تعلقات خراب نہیں کرسکتے، صدام حسیین کے حق میں پوری دنیا میں نعرے لگتے لیکن ان کا انجام دنیا کے سامنے ہے، میری درخواست ہے خدا کے لیے عالمی سیاست کو ملکی سیاست میں نہ لائیں۔
واضح رہے کہ چوہدری سرور کی برطرفی کا اعلان آج صبح وفاقی وزیر اطلاعات و قانون فواد چوہدری نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں کیا تھا۔
مزید پڑھیں: چوہدری سرور نے ساڑھے 3 سال گورنرشپ کے مزے لیے، اور کیا چاہیے، پرویز الہٰی
وفاقی حکومت نے چوہدری محمد سرور کو ان کے عہدے سے برطرف کرنے کے چند گھنٹے بعد ہی عمر سرفراز چیمہ کو پنجاب کا نیا گورنر مقرر کردیا۔
خیال رہے کہ گورنر پنجاب کو ان کے منصب سے ایسے وقت برطرف کیا گیا کہ جب آج صوبائی اسمبلی میں قائد ایوان یعنی وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہونا ہے۔
یاد رہے کہ پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے 28 مارچ کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی۔
اسی روز عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم عمران خان کو پیش کیا تھا جس کے بارے میں (ق) لیگ نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ سے استعفیٰ لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی کا اجلاس وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بغیر ملتوی
ساتھ ہی وزیراعظم کی جانب سے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر نامزد کردیا گیا تھا اور انہیں قومی اسمبلی میں تحریک عدم ناکام بنانے کے لیے منحرف اراکین کو منانے کی بھی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
بعد ازاں یکم اپریل کو گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرنے کے ساتھ ساتھ 2 اپریل بروز ہفتہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کرلیا تھا، جس کے ایجنڈے میں قائد ایوان کا انتخاب شامل تھا۔
تاہم ہفتے کو ہونے والا پنجاب اسمبلی کا اجلاس اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی ہنگامہ آرائی کے باعث وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بغیر ہی آج تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔