قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کارکنان کے ٹکراؤ کے امکان پر اپوزیشن پریشان
وزیر اعظم عمران خان کے تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ایک لاکھ حامیوں کو جمع کرنے کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) انتظامیہ سے پارٹی کی وابستگی سے قطع نظر ہر رکن قومی اسمبلی کی سیکیورٹی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دوسری جانب اسلام آباد کی سیکیورٹی میں اضافہ کرتے ہوئے بدلتے حالات کے پیش نظر شہباز شریف کو پولیس کمانڈوز فراہم کر دیے گئے ہیں۔
دریں اثنا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک منحرف رکن قومی اسمبلی نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان ایک آڈیو لیک ہونے کے بعد ’افغانستان جیسےحالات‘ پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے، جس میں انہیں کابینہ کے ارکان کو احتجاج کرنے اور پارٹی بدلنے والے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی تصاویر لینے کی ہدایات دیتے سنا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کا اجلاس تحریک عدم اعتماد پر بحث کے بغیر اتوار تک ملتوی
علاوہ ازیں پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا جس میں مظاہرین نے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی تصاویر اٹھائی ہوئی تھی۔
شہباز شریف نے چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) اسلام آباد کو خط لکھا جس میں اتوار (3 اپریل) کو ووٹ ڈالنے والے تمام اراکین قومی اسمبلی کو مکمل سیکیورٹی کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
شہباز شریف نے اسلام آباد انتظامیہ کو کہا کہ ’یہ آپ کی آئینی اور قانونی ذمہ داری اور فرض ہے کہ جب اراکین، قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 95 (1) کے تحت تمام اراکین کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر ان کی مکمل حفاظت اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس اتوار کو صبح 11 بج کر 30 منٹ پر ہوگا جب مذکورہ قرارداد پر ووٹنگ کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: اتوار کو عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہوگا مزید تگڑا ہو کر سامنے آؤں گا، وزیر اعظم
شہباز شریف نے خط میں وزیراعظم عمران خان کی 29 مارچ کو میڈیا نمائندوں سے گفتگو کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ووٹنگ کے دن پی ٹی آئی کے ایک لاکھ حامی پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جمع ہوں گے۔
اپوزیشن لیڈر نے اپنے خط میں کہا کہ ووٹنگ کے روز ایسا کوئی بھی اجتماع صریحاً خلاف ورزی ہوگی، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے 18 مارچ کے حکم کے مطابق سی آر پی سی کی دفعہ 144 کے تحت ریڈ زون کے اندر پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی بھی اجتماع لامحالہ دیگر جماعتوں کو اپنے تحفظ کے لیے اپنے حامیوں کو لانے کے لیے اکسائے گا، جس سے خونریزی اور افراتفری پھیل سکتی ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ اسلام آباد انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ اتوار (3 اپریل) کو تمام اراکین قومی اسمبلی کو ایوان میں آنے اور جانے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حفاظتی انتظامات فول پروف ہونے چاہئیں کیونکہ سندھ ہاؤس واقعے کی طرز پر غفلت یا ناکافی تیاری جیسا کوئی بھی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔