بجلی کمپنیوں کو اپریل میں 41 ارب 70 کروڑ روپے وصولی کی اجازت
ملک بھر میں بجلی کی کٹوتی کا سبب بننے والے تقریباً 5 ہزار 400 میگاواٹ کے شارٹ فال کی تصدیق کرتے ہوئے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کے لیے 4 روپے 68 پیسے فی یونٹ اضافی فیول ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کو حتمی شکل دیتے ہوئے مطلع کیا کہ فیول ایڈجسمنٹ کی مد میں کے الیکٹرک سے 3 روپے 3 پیسے فی یونٹ اضافی وصول کیے جائیں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ریگیولیٹرز نے ڈسکوز کے لیے فروری میں استعمال ہونے والی بجلی پر 4روپے 68 پیسے فی یونٹ فیول ایڈجسٹمنٹ جارچز مقرر کیے تھے، جبکہ چیئرمین نیپرا کی سربراہی میں ہونے والی عوامی سماعت میں 4 روپے 95 پیسے فی یونٹ بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اضافے کے بعد اپریل میں ڈسکوز کو تقریباً 38 ارب 30 کروڑ روپے کے اضافی فنڈز موصول ہوں گے۔
مزید پڑھیں: بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر اپوزیشن کی حکومت پر تنقید
ریگولیٹر نے جنوری میں فروخت ہونے والی بجلی کی فیول ایڈجسمنٹ کی مد میں 3 روپے 3 پیسے فی یونٹ اضافے کے لیے ’کے الیکٹرک‘ کو علیحدہ طور پر مطلع کیا ہے تاکہ کراچی میں قائم پاور یوٹیلٹی کو اپریل کے بلنگ مہینے میں تقریباً 3 ارب 40 کروڑ روپے کے اضافی فنڈز فراہم کیے جاسکیں۔
سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے تمام سابق واپڈا ڈسکوز کی جانب سے ایف سی اے میں 117 فیصد یعنی 4 روپے 95 پیسے سے زائد اضافے کا مطالبہ کیا تھا، تاکہ فروری میں فروخت ہونے والی بجلی کے لیے 9 روپے 2 پیسے فی یونٹ تک تقریباً 39 ارب روپے اضافی حاصل ہو سکیں۔
تاہم ریگولیٹر نے 4 روپے 68 پیسے فی یونٹ اضافی ایف سی اے کو حتمی شکل دی۔
چیئرمین توصیف ایچ فاروقی نے پاور کمپنیوں اور نیپرا کے متعلقہ افسران سے جانچ پڑتال کے بعد کہا کہ ملک کو اس وقت 5 ہزار 372 میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں: سندھ حکومت کا کراچی میں بجلی کے بل کے ذریعے دو الگ ٹیکس وصول کرنے کا منصوبہ
انہوں نے کہا کہ ایندھن کی کمی کے سبب تقریباً 2 ہزار 139 میگاواٹ شارٹ فال کا سامنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی کا نیوکلیئر پلانٹ (کے ٹو) ٹرپ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوچکا ہے، جبکہ ’کے تھری‘ اب بھی جانچ پڑتال کے مرحلے میں ہے۔
انہوں نے مزید آگاہ کیا کہ چشمہ پلانٹ کو بھی تکنیکی خرابی کا سامنا ہے۔
تاہم انہوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب حکومت 40 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کی صلاحیت کا دعویٰ کر رہی ہے تو متعلقہ حکام اس شارٹ فال سے نمٹنے میں ناکام کیوں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اتنے بڑے پورٹ فولیو سے 5 یا 7 ہزار میگاواٹ بجلی کی عدم دستیابی سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا‘۔
مزید پڑھیں: بجلی 5 روپے سستی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی منظوری
یہ بات بہت معمول بن گئی ہے کہ حکومت اور ریگولیٹر کی طرف سے منظور شدہ ایندھن کی قیمتیں انتہائی غیر حقیقی نکلتی ہیں، جو ان کی معاشی اور مالیاتی تجزیاتی مہارت پر سوالیہ نشان ہے۔
تاہم حالیہ مہینوں میں ایندھن کی حقیقی قیمت ریفرنس ریٹ سے 56 سے 117 فیصد زیادہ ہوتی ہے، نتیجتاً غیر ملکی قرض دہندگان کے کہنے پر بجلی کے بنیادی نرخوں میں بار بار اضافے کے علاوہ ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے صارفین کو قیمتوں کے اچانک اضافے کا جھٹکا بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔