اسلام آباد ہائیکورٹ کی وزیر داخلہ کو بلوچ طلبہ کی شکایات سننے کی ہدایت
اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کو احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ کی شکایات سننے کی ہدایت کی ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اگر حکم کی تعمیل نہ کی گئی تو انہیں طلب کیا جائے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایچ سی کے چیف جسٹس اطہر من اللہ انسانی حقوق کی کارکن ایمان زینب حاضر مزاری کی جانب سے ان کے ہمراہ احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کیے جانے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کر رہے تھے۔
سماعت کے دوران ایمان زینب مزاری نے چیف جسٹس اطہر من اللہ سے درخواست کی کہ وہ بلوچ طلبہ کا نقطہ نظر سنیں، اس لیے جج نے بلوچ طالب علم محمد عبداللہ کو عدالت سے بات کرنے کی اجازت دی۔
یہ بھی پڑھیں: احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ کیخلاف مقدمہ خارج ہونے پر عدالت نے درخواست نمٹا دی
محمد عبداللہ نے کہا کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قائد اعظم یونیورسٹی کے ان طلبہ میں سے ایک ہیں جو وفاقی حکومت کی توجہ اپنی شکایات کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طلبہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے نیشنل پریس کلب کے باہر کیمپ لگا کر یہ کوشش کر رہے ہیں۔
محمد عبداللہ نے ان حقائق کو تفصیل سے بیان کیا جن کی بنیاد پر یہ تاثر پیدا ہوچکا تھا کہ طلبہ کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے میں سرکاری ادارے ملوث ہیں۔
مزید پڑھیں: پولیس کو ایمان مزاری، بلوچ طلبہ کے خلاف کیس میں گرفتاری سے روک دیا گیا
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج عدالت کے سامنے جو حقائق آئے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ تاثر اور خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ خصوصاً بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو وفاقی حکومت کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ ان طلبہ کو سنے جانے کا حق ہے، یہ افسوسناک ہے کہ سرکاری اداروں کا طرز عمل شہریوں، بالخصوص طلبہ کے معاملے میں ان کی آئینی ذمہ داریوں کے مطابق نہیں پایا گیا، ریاست کو سرکاری اداروں کے ذریعے نوجوان طلبہ اور اس معاملے میں خاص طور پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ کی بازیابی کیلئے جاری دھرنا ملتوی
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ بلوچستان کے ایک نوجوان طالب علم کے ذریعہ بیان کردہ حقائق تشویشناک اور آئینی طور پر ضمانت شدہ حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں، وفاقی حکومت کا جو طرز عمل عدالتی کارروائی کے دوران مشاہدے میں سامنے آیا ہے، وہ ہمدردی کا فقدان ظاہر کرتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ 31 مارچ کو بلوچستان کے متاثرہ طلبہ سے ملاقات کریں اور ان کی شکایات سنیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یکم اپریل کو رپورٹ بھی طلب کی، انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر اس حکم کی تعمیل سے انکار کیا گیا تو عدالت وزیر داخلہ کو طلب کرنے پر غور کرے گی کیونکہ عدالت کی توجہ میں لائی گئی شکایات سنگین نوعیت کی ہیں۔