• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

امید ہے وزیر اعظم کوئی بھی خفیہ معلومات افشا نہیں کریں گے، اسلام آباد ہائی کورٹ

شائع March 30, 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہری کی درخواست پر حکم جاری کیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہری کی درخواست پر حکم جاری کیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے خفیہ معلومات عام کرنے کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امید ہے کہ وزیراعظم پاکستان کی قومی سلامتی کے حوالے سے کوئی بھی معلومات افشا نہیں کریں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے شہری محمد نعیم خان کی درخواست پر سماعت کی، جس میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم کو خفیہ معلومات عام کرنے سے روکنے کا حکم دیا جائے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کےخلاف ’دھمکی آمیز خط‘ کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا

عدالت نے حکم نامے میں بتایا کہ امید ہے وزیر اعظم حلف کی خلاف ورزی میں کوئی بھی معلومات جاری نہیں کریں گے، عدالت امید رکھتی ہے کہ وزیر اعظم ایسا کچھ بھی ظاہر نہیں کریں گے۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ وزیراعظم جو بھی فیصلہ کریں وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور ان کے حلف کے مطابق ہونا چاہیے، عدالت کو اعتماد ہے کہ منتخب وزیراعظم آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی میں کوئی معلومات ظاہر نہیں کریں گے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت کو اعتماد ہے کہ وزیراعظم قومی مفاد اور ملکی وقار کے خلاف کوئی معلومات جاری نہیں کریں گے۔

عدالت نے کہا ہے کہ بلاجواز روکنے کا حکم جاری کرنا منتخب وزیراعظم پر عدم اعتماد کو ظاہر کرے گا۔

حکم نامے میں کہا ہے کہ درخواست گزار کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک کت ساتھ ہی خط کی بابت کہا گیا،آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5 کے تحت پبلک آفس ہولڈر خفیہ دستاویز کو نہیں دکھا سکتا۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت امید کرتی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان بطور سربراہ ایسا کوئی بھی خفیہ خط نہیں دکھائیں گے اور ایسی کوئی بھی معلومات جس سے ملکی مفاد پر آنچ آئے وہ منظر عام پر نہیں لائی جائے گی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کو ہدایات کے ساتھ درخواست نمٹا دی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم ’دھمکی آمیز خط‘ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کیلئے تیار ہیں، اسد عمر

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں بھی مذکورہ خط کے بارے میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے اور مبینہ دھمکی آمیز خط کی تحقیقات کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ ذوالفقار احمد بھٹہ نے دائر کی جس میں سیکریٹری قانون ڈویژن اور سول سیکریٹریٹ کے ذریعے وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ 27 مارچ کو ایک حیرت انگیز اور خطرناک لمحہ اس وقت آیا جب وزیراعظم عمران خان نے اپنی جیب سے ایک خط نکال کر لہرایا اور دعویٰ کیا کہ یہ اس بین الاقوامی سازش کا ’ثبوت‘ ہے جو ان کی حکومت گرانے کے لیے کی جارہی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ چاہے جو بھی معاملہ ہو لیکن اس عمل سے عوام میں دوست ممالک کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جارہے ہیں اور یہ معاملہ پاکستانی سیاست کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے طور پر زیر بحث ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال عمومی نہیں بلکہ غیر معمولی ہے جس سے ان ممالک کے خلاف نفرت پیدا ہوسکتی ہے جن کے سفارت خانے پاکستان میں موجود ہیں اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے جو ہمارے لیے اور دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں باعث شرمندگی ہوسکتا ہے۔

سپریم کورٹ سے درخواست گزار نے استدعا کی کہ یہ معاملہ فوری اقدامات کا متقاضی ہے تا کہ عام پاکستانی کو اس صورت حال سے پیدا ہونے والی ذہنی اذیت سے نکالا جائے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ فریقین کو وہ خط جو وزیراعظم نے 27 مارچ کو جلسے میں لہرایا تھا، اسے تحقیقات کے لیے متعلقہ سول اور فوجی حکام کو دینے کی ہدایت کی جائے۔

خط کا پس منظر

یاد رہے وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں آج قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، میں الزامات نہیں لگا رہا، میرے پاس جو خط ہے، یہ ثبوت ہے اور میں آج یہ سب کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی شک کر رہا ہے، میں ان کو دعوت دوں گا کہ آف دا ریکارڈ بات کریں گے اور آپ خود دیکھ سکیں گے کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے دل کھول کر کہہ رہا ہوں، بیرونی سازش پر ایسی کئی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ لندن میں بیٹھا ہوا کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے کے اوپر چل رہے ہیں۔

تاہم وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔

حیرت انگیز طور پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کسی بھی خط کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی، باہر سے حکومت بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے، وزیر اعظم

البتہ گزشتہ روز وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ساتھ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا تھا کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں خط کیوں نہیں دیا جارہا، کچھ راز قومی نوعیت کے ہوتے ہیں، وزیر اعظم نے مجھے کہا ہے کہ اگر کسی کو کوئی شک ہے تو ہم یہ خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دکھانے کے لیے تیار ہیں، ان پر سب اعتماد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا مجھے اجازت نہیں ہے کہ اس خط میں لکھے ہوئے الفاظ بتاسکوں لیکن کلیدی باتیں دہرا دیتا ہوں کہ اس مراسلے کی تاریخ عدم اعتماد تحریک پیش ہونے سے قبل کی ہے، یہ اہم اس لیے ہے کہ اس مراسلے میں براہِ راست تحریک عدم اعتماد کا ذکر ہے۔

اسد عمر نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ خط میں دو ٹوک الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوتی اور عمران خان وزیر اعظم رہتے ہیں تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔

اسد عمر نے کہا تھا کہ قانونی بندشوں کے سبب یہ مراسلہ صرف اعلیٰ ترین فوجی قیادت اور کابینہ کے کچھ اراکین کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے، اس لیے وزیر اعظم نے یہ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا تھا کہ اس مراسلے میں براہِ راست پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ذکر ہورہا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ مراسلے میں پیغام دیا گیا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک اور بیرونی ہاتھ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'وزیراعظم نے بتانے کی ہمت کیوں نہیں کہ انھیں کس نے خط لکھا اور کیا دھمکی دی'

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مراسلے میں نواز شریف ملوث ہیں جو لندن میں بیٹھ کر ملاقاتیں کر رہے ہیں، نواز شریف کس کس سے ملتے رہے، وزیراعظم جب چاہیں گے اس کی تفصیل بتا دیں گے، پی ڈی ایم کی سینئر لیڈر شپ اس بات سے لاعلم نہیں ہے۔

اس موقع پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے لندن میں بہت ساری ملاقاتیں کی ہیں اور وہ ملاقاتیں رپورٹ بھی ہوئی ہیں کہ جس میں ان کی اسرائیلی سفارت کار سے بھی ملاقات ہوئی ہے، پھر اس کے بعد ہمیں یہ خط موصول ہوا ہے جس میں تحریک عدم اعتماد کا ذکر ہے جبکہ یہ خط تحریک عدم اعتماد جمع کرانے سے پہلے کا ہے اور یہ ہی بات قابل تشویش ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024