انسانی دماغ کا ایک اور دلچسپ راز سامنے آگیا
ہوسکتا ہے کہ آپ کو محسوس نہ ہوا ہو مگر ہماری آنکھیں مسلسل متحرک رہتی ہیں اور جس چیز پر نظریں جماتے ہیں اس کے بارے میں نئی تفصیلات اکٹھی کرتی ہیں۔
یہ تفصیلات ہمارے دماغ تک جاتی ہیں اور وہ اس کی وضاحت کرتا ہے (اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ آپ کس چیز کو دیکھ رہے ہیں) اور ایسی دماغی سرگرمی متحرک ہوتی ہے جو بہت منفرد ہوتی ہے۔
مگر جب نگاہیں کسی انسانی چہرے پر جمتی ہیں تو دماغ کے اس حصے کے مخصوص خلیات متحرک ہوتے ہیں جو سماجی معلومات، ردعمل اور یادداشت بنانے والی سرگرمیوں کو متحرک کرتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی۔
سیڈرز سینائی میڈیکل سینٹر کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ایک چہرہ ہماری نگاہ کے لیے اہم ترین اشیا میں سے ایک ہے، درحقیقت ہم متعدد فیصلے چہروں کو دیکھتے ہوئے اس کی بنیاد پر کرتے ہیں، جیسے ہم کسی پر اعتماد کرتے ہیں، دیگر فرد خوش ہے یا غصے میں یا ہم نے اس فرد کو پہلے دیکھا یا نہیں۔
اس کو مزید گہرائی سے جاننے کے لیے مرگی کے شکار 13 مریضوں کو تحقیق کا حصہ بنایا گیا اور ان کے دماغ میں الیکٹروڈ کو نصب کیا گیا۔
یہ الیکٹروڈ ان کے مرگی کے دوران کی وجہ جاننے کے لیےنصب کیے گئے تھے مگر ان کے ذریعے نیورونز کی سرگرمیوں کو بھی ریکارڈ کیا گیا۔
اس مقصد کے لیے ان افراد کی آنکھوں کے سامنے کیمرے سے متعدد اشیا بشمول انسانی چہروں کو دکھایا گیا۔
اگلے مرحلے میں ان کے سامنے انسانی چہروں کی ایک سیریز کو چلایا جن میں سے کچھ ایسے تھے جن کو پہلے تجربے کے دوران دیکھ چکے تھے اور پھر پوچھا گیا کہ کیا وہ ان کو یاد ہیں یا نہیں۔
محققین نے دریافت کیا کہ کسی اور شے کے مقابلے میں جب بھی لوگوں کی نظریں کسی انسانی چہرے پر جمتی ہیں تو مخصوص خلیات بہت زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔
ہر بار جب یہ 'فیس سیلز' متحرک ہوتے ہیں تو لہروں کا ایک مخصوص پیٹرن بنتا یا ختم ہوتا ہے۔
محققین نے کہا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ جانوروں کی طرح انسانوں میں بھی آنکھوں کی حرکت سے اس طرح کی لہریں بنتی یا ختم ہوتی ہیں اور یہ اس وقت بہت ٹھوس ہوتا ہے جب آپ دیگر انسانوں کے چہرے دیکھتے ہیں۔
محققین نے یہ بھی ثابت کیا کہ یہ خلیات جتنی تیزی سے متحرک ہوتے ہیں اتنا زیادہ اس چہرے کا یاد رہنے کا امکان ہوتا ہے۔
جب یہ خلیات سست روی سے کام کرتے ہیں تو چہرے کو بھولنے کا امکان بڑھتا ہے۔
تحقیق کے مطابق جانے پہچانے چہروں کو دیکھ کر بھی یہ خلیات سست روی سے متحرک ہوتے ہیں، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ چہرے ان کی یادداشت میں پہلے ہی مھفوظ ہوچکے ہیں اور اس کے لیے اضافی سرگرمیوں کی ضرورت نہیں۔
محققین کے مطابق جن افراد کو چہرے یاد رکھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے ، ان میں ایسا ان خلیات کے افعال متاثر ہونے کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔
نتائج سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ آنکھوں کی حرکت اور دماگی لہریں دونوں یادداشت کے لیے اہم ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے سائنس ایڈوانسز میں شائع ہوئے۔