بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کتنا اثر و رسوخ رکھتی ہے؟

شائع March 30, 2022

1951ء میں پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ایوب خان کے دورِ حکومت میں روس اور پاکستان گوادر کے معاملے پر بہت قریب آچکے تھے۔ معاملات تقریباً طے پاچکے تھے اور صدرِ مملکت کو سابق سویت یونین جاکر مفاہمت کی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کرنے تھے، لیکن اچانک معاملات سرخ فیتے کی نذر ہوگئے۔

کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر ہوا اور پھر اسی بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی نوازش سے کسی نے وزیر سے وزیرِاعظم بننے تک کا سفر کیا۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن جب بھٹو صاحب نے اسلامی بلاک بنانے کا فیصلہ کیا تو اسی بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے نہ صرف انہیں اقتدار سے بے دخل کردیا بلکہ جیل سے پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو مارشل لا کے ذریعے ہی کچل ڈالا۔

اسی اسٹیبلشمنٹ نے افغان جنگ میں جہاد کے نام پر اپنا کام نکالنے اور سویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد ایک جہاز کو بھی فضا میں ٹکڑے ٹکڑے کروا دیا اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے مملکتِ خداداد میں کبھی جمہوریت کو حقیقی معنوں میں پنپنے ہی نہیں دیا۔

یہی بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ تھی جس نے نائن الیون کا جواز بناکر افغانستان پر حملہ کرنے، ایٹمی ہتھیاروں کا بہانہ بناکر کر عراق پر بمباری کرنے اور کرنل قذافی کو اقتدار سے ہٹانے سے لے کر ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔

اپنے ملک اور عوام کے مفاد میں فیصلے کرنا ہر ریاست کا حق ہے لیکن جیسے ہی کوئی ملک یا ریاست بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف جانے کی کوشش کرتی ہے تو یہ حرکت میں آجاتی ہے۔ زیادہ وسائل اور طاقت رکھنے والی اس اسٹیبلشمنٹ کو لوگوں اور ملکوں کو لڑانے کا ہنر بھی آتا ہے اور گمراہ کرنے کا حربہ بھی آتا ہے۔

ذوالفقار بھٹو  نے اسلامی بلاک بنانے کا فیصلہ کیا تو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں بھی چلتا کیا— تصویر:ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز
ذوالفقار بھٹو نے اسلامی بلاک بنانے کا فیصلہ کیا تو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں بھی چلتا کیا— تصویر:ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز

جیسے جیسے روس کی پیش قدمی بڑھ رہی ہے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ میں بے چینی پھیل رہی ہے۔ امریکا، برطانیہ، یورپ اور نیٹو اتحاد کو پرائی لڑائی میں براہ راست کودنے سے تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھنے کا خطرہ ہے اس لیے ان کے پھونک پھونک کر اٹھتے قدم بھی ڈگمکا رہے ہیں۔

ایک جانب یوکرین کو اسلحے کی بھرپور فراہمی، امداد اور سابق عالمی طاقت پر معاشی پابندیوں کے ثمرات نہ ملنے سے مایوسی ہے تو دوسری طرف توقعات کے برعکس اقدامات، خاص کر پاکستان، چین، بھارت اور سری لنکا جیسے ملکوں کی اقوام متحدہ میں خاموشی اور روسی اقدام کی مذمت نہ کرنے کے معاملے نے اسی اسٹیبلشمنٹ کی پریشانی مزید بڑھا دی ہے۔

اقوام متحدہ میں روس کےخلاف ووٹنگ میں پاکستان کی عدم شرکت کا معاملہ امریکی سینیٹ میں بھی زیرِ بحث آیا اور سوال اٹھے کہ قرارداد پر پاکستان نے کیوں اور کیسے خاموشی اختیار کی؟ روس اور یوکرین تنازعے پر پاکستان کی خاموشی یا غیر جانبداری نے شاید بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا۔

بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی باتیں اب پاکستان کے اندر بھی اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ 27 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پریڈ گراؤنڈ جلسے میں وزیرِاعظم عمران خان نے ایک خط لہرایا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور ان کی حکومت گرانے کی کوششوں کے پیچھے بھی بیرونی ہاتھ اور دباؤ ہے۔

جلسے کے بعد چہ مگوئیاں اور جتنے منہ اتنی باتوں والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اپوزیشن نے پیشکش کی کہ ایسا ہے تو وزیرِاعظم خط پارلیمنٹ میں پیش کریں قومی سلامتی پر ان کا بھر پور ساتھ دیا جائے گا۔ لیکن حکومت کہتی ہے کہ یہ قومی سلامتی کا پیچیدہ معاملہ ہے، سب کو تو نہیں لیکن مراسلہ ایک بڑے کی حیثیت سے چیف جسٹس آف پاکستان کو دکھایا جاسکتا ہے۔

وزیرِاعظم  نے جلسے کے دوران کہا کہ ان کی حکومت گرانے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے—تصویر: ڈان نیوز
وزیرِاعظم نے جلسے کے دوران کہا کہ ان کی حکومت گرانے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے—تصویر: ڈان نیوز

حکومت کے بقول یہ مراسلہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے آیا اور اس میں دوٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوتی اور عمران خان وزیرِاعظم رہتے ہیں تو خوفناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ حکومت نے تو نہیں بتایا کہ یہ مراسلہ کہاں سے آیا اور کس نے بھیجا لیکن ایک بات پھر سے واضح ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ شاید دنیا کے معاملات چلانے والی بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ پھر سے فعال ہے۔ پاکستان میں ماضی میں پیش آنے والے چند واقعات بھی اسی بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ اگر واقعی ایسا ہے جیسا کہ حکومت ظاہر کررہی ہے اور اسے ثابت کرنے کے لیے سپریم کورٹ جانے کی بات بھی کررہی ہے تو یہ لمحہ فکریہ ہے اور اس فکر کو دُور کرنے کے لیے نہ صرف اپوزیشن بلکہ پوری قوم کو یک آواز ہوکر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے تاکہ نادیدہ عالمی قوتوں کو بار بار مملکتِ خداداد میں کی جانے والے ایڈونچر سے روکا جاسکے لیکن اگر جلسے میں لہرایا جانے والا خط ایک سیاسی اسٹنٹ ہے تو قوم کبھی اس حکومت کو معاف نہیں کرے گی۔

ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ قومی نوعیت کے بہت سے سانحات رونما ہونے کے بعد ان کی تحقیقات تو ہوتی ہیں اور کمیشن بھی بنتے ہیں لیکن برسوں بعد بھی راز راز ہی رہتے ہیں اور قوم لاعلم رہتی ہے یا اسے جان بوجھ کر لاعلم رکھا جاتا ہے۔ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کے سوا لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر طیارہ حادثے تک کئی سانحات کی اصل وجہ آج بھی منظرِ عام پر نہ آسکی۔

زاہد مظہر

زاہد مظہر ڈان نیوز میں بطور ڈائرکٹر نیوز اور کرنٹ افیئرز ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 3 اکتوبر 2024
کارٹون : 2 اکتوبر 2024