• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

چوہدری پرویز الٰہی وزارت اعلیٰ کے حصول، وزیراعظم کو بچانے کیلئے سرگرم

شائع March 30, 2022
پرویز الٰہی نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد سےبچ جائیں گے—تصویر: فیس بک پی ایم ایل کیو
پرویز الٰہی نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد سےبچ جائیں گے—تصویر: فیس بک پی ایم ایل کیو

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے چوہدری پرویز الٰہی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کرنے کے اعلان کے بعد اسپیکر پنجاب اسمبلی نئے عہدے کے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہوگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پرویز الٰہی نے مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے اپنے خلاف امیدوار کھڑا کرنے کی صورت میں حمایت کے لیے پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر ترین سے رابطہ کیا۔

ساتھ ہی انہوں نے حکمراں جماعت کے بھی کچھ منحرف اراکین سے بات کر کے انہیں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت نہ کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کی۔

ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے پرویز الٰہی نے پر اعتماد طریقے سے دعویٰ کیا کہ ’وزیراعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد سےبچ جائیں گے اور نیا وزیراعلیٰ پنجاب بھی پی ٹی آئی اتحاد کا ہوگا، ہم دونوں اہداف پورے کرلیں گے۔

پارٹی کی جانب سے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مسلم لیگ (ق) کے سینیئر رہنما نے کہا کہ ’مسلم لیگ (ن) میں مریم نواز کا گروپ ق لیگ کو کچھ بھی دینے کے خلاف ہے اور ہمیں 5 سیٹوں والی پارٹی کہا، ہمیں ہمارے ذرائع نے بتایا کہ ہم اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بعد 4 ماہ سے زیادہ اقتدار میں نہیں رہیں گے‘۔

مزید برآں انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ترین گروپ کے اراکین سے بات کی ہے اور وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ان کی حمایت کریں گے۔

ترین گروپ کے ایک رفاقت علی گیلانی نے پرویز الٰہی سے ملاقات کی اور انہیں اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔

وزیر آبی وسائل مونس الٰہی نے جہانگیر ترین کے بیٹی علی ترین سے بات کی اور ان سے ان کے گروپ کی حمایت کی درخواست کی۔

مسلم لیگ (ق) کے رہنما کامل علی آغا نے بھی کہا کہ پارٹی کی ترجیح یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کو یقینی بنایا جائے، ہم اپنی بھرپور کوششیں کررہے ہیں کہ اتحادی حکومت اپنی مدت پوری کرے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ق) رکن قومی اسمبلی طارق بشیر چیمہ کو منانے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں پارٹی لائن کے خلاف ووٹ نہ دیں۔

دوسری جانب طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ وہ اب بھی گجرات کے چوہدریوں کے ساتھ ہیں لیکن وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ تبدیل کرنے سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے اپوزیشن کا امیدوار کون ہوگا؟

چوہدریوں کا حکومت سے علیحدگی کا کوئی ارادہ نہ ہونے کی امید کھونے کے بعد اپوزیشن نے پرویز الٰہی کے خلاف اپنے امیدوار کے نام کو حتمی شکل دینے پر غور شروع کر دیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق اور پی ٹی آئی کے فواد چوہدری نے مبینہ طور پر منگل کو ترین گروپ کے رہنما عون چوہدری سے بات کی تاکہ تحریک عدم اعتماد اور وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے ان کی حمایت حاصل کی جائے۔

پارٹی کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ ’فواد چوہدری نے عون چوہدری کو بتایا کہ وزیر اعظم نے عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کے ان کے گروپ کا مطالبہ مان لیا ہے، اور اب اسے وزیر اعظم کی حمایت کرنی چاہیے‘۔

اس دوران ترین گروپ نے لاہور میں ایک میٹنگ کی اور پرویز الٰہی کی حمایت پر تبادلہ خیال کیا، تاہم گروپ نے کہا کہ حتمی فیصلہ جہانگیر ترین کریں گے جو اس وقت اپنے علاج کے لیے لندن میں ہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے جاوید لطیف نے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز یا پی ٹی آئی کے ناراض ایم پی اے علیم خان صوبائی وزیر اعلیٰ کے لیے مشترکہ اپوزیشن کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ علیم خان اپنی حمایت میں ایک بھی قانون ساز پیش نہیں کر سکے اور 30 سے 40 ایم پی اے کی حمایت کے ان کے دعوے ’جھوٹے‘ نکلے۔

خیال رہے کہ 371 رکنی پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 165، پی پی پی کے 7، مسلم لیگ (ق) کے 10 اور 20 کے قریب ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی ہیں۔

عثمان بزدار کا عہدہ

اس دوران وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے نتیجے تک عہدے پر برقرار رہنے کا امکان ہے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ’عثمان بزدار کا استعفیٰ ابھی تک گورنر نے قبول نہیں کیا ہے اگر وہ قبول کرلیتے تو 2 سے 3 روز میں اسمبلی کا اجلاس بلانا پڑتا اور وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں یہ حکومت کے لیے بہتر نہیں تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024