• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

شاہد خاقان کا وزیراعظم پر ’دھمکی آمیز خط‘ پارلیمنٹ، سلامتی کمیٹی میں پیش کرنے پر زور

شائع March 29, 2022
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے تھے—فوٹو:ڈان نیوز
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اسلام آباد میں پریس کانفرنس کر رہے تھے—فوٹو:ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اگر وزیر اعظم کو کوئی دھمکی آمیز خط موصول ہوا ہے تو اس کو پارلیمان میں پیش کیا جائے، میرے علم میں نہیں کہ وہ خط ملک کی عسکری قیادت نے دیکھا ہے یا نہیں، اگر وہ خط عسکری قیادت نے دیکھا ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ اس کو قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیا جائے اور اس معاملے پر بات کی جائے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا وزیراعظم عمران خان کو دھمکی اور خطرہ کسی بیرونی سازش سے نہیں، انہیں خطرہ پاکستان کے عوام سے ہے جو انہیں آئندہ چند روز میں گھر بھیجیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے ملک کو دھمکی آئی ہے تو ہم سب کو مل کر اس دھمکی کا مقابلہ کرنا ہے، ہم سب کو مل کر اس کا جواب دینا ہے، یہ خط عمران خان یا ان کے وزرا کا مسئلہ نہیں ہے، یہ خط عمران خان کو نہیں، پاکستان کو لکھا گیا ہے، یہ پاکستان کے 23 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے اور اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ خط وزیراعظم دیکھ سکتے ہیں، ان کے وزرا دیکھ سکتے ہیں، سپریم کورٹ کے جج کو بھی دکھایا جا سکتا ہے تو قوم کے نمائندوں کو بھی وہ خط دکھانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان کے کرپشن کی ہوشربا داستانیں سامنے آنے والی ہیں، مریم نواز

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ حکومت یہ خط نہیں دکھائے گی تو 4 اپریل کے بعد وہ خط قوم دیکھے گی، وہ اخبارات میں چھاپا جائے گا کہ کونسا وہ ملک ہے جس کے اندر یہ جرات ہوئی کہ ہمارے ملک کو اس طرح سے دھمکیاں دے، پاکستان کو للکار سکے۔

انہوں نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو بلائیں اور وہ خط پارلیمان کے سامنے رکھیں کہ کونسا وہ ملک ہے جس نے ہمارے وزیراعظم کو دھمکی آمیز خط لکھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں یہ بھی طے ہونا چاہیے کہ یہ خط تحریک عدم اعتماد کے دوران کیوں آیا، یہ بات بھی طے ہونی چاہیے کہ حکومت کے وزرا نے اس شخص پر اس خط کا الزام کیوں لگایا جس نے اس ملک کو ایسے حالات میں ایٹمی طاقت بنایا جب پوری دنیا کا دباؤ تھا، جب پوری دنیا کہہ رہی تھی کہ پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا اور پھر ملک کو ایک جوہری طاقت بنایا، ہم ڈرے نہیں، وزیراعظم عمران خان کی طرح ہم نے رو رو کر تقریر نہیں کی، رو رو کر خط نہیں لہرائے، کبھی یہ نہیں کہا کہ ہمیں دنیا ڈرا رہی ہے، ہمیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:چوہدری پرویزالہٰی کو منصب دینے سے نواز شریف کے انکار کی خبر بے بنیاد ہے، خواجہ سعد رفیق

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والا شخص آج بھی ملک کی سیاست کا محور و مرکز ہے، نواز شریف آج ملک میں موجود نہیں، علاج کی غرض سے بیرون ملک مقیم ہیں لیکن ان کی کامیابی ہے کہ آج بھی وزیراعظم رو رو کر نام ان کا ہی لیتا ہے، اس حکومت کے وزرا کو جب تکلیف ہوتی ہے تو وہ بھی میاں نواز شریف کا ہی نام لیتے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آج اپنے اقتدار کو بچانے کےلیے ملک کی خارجہ پالیسی کوداؤ پر نہ لگائیں، اگر مسائل ہیں، اگر واقعی کسی ملک نے آپ کو دھمکی آمیز خط لکھا ہے تو پوری قوم آپ کے ساتھ ہوگی، اس معاملے کو قومی سلامتی کمیٹی میں لے کر آئیں،پارلیمان میں لے کر آئیں، پوری قوم مل کر ان دھمکیوں کا مقابلہ کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور وفاقی وزرا تحریک عدم اعتماد کے دوران قومی سلامتی سے متعلق باتیں کر رہے ہیں، ایسی باتوں پر اپوزیشن کو بے پناہ تشویش ہے، اگر یہ باتیں میڈیا کے سامنے کی جاسکتی ہیں تو پارلیمان کو بھی بتائیں، خط کے معاملات کو پارلیمنٹ کے سامنے رکھنے میں حکومت خوفزہ کیوں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:عوام اٹھیں اور ’مہنگائی مکاؤ مارچ‘ میں جوق در جوق شامل ہوں، شہباز شریف

ان کا کہنا تھا کہ لیکن اگر وزیراعظم خط سے متعلق جھوٹ بول رہے ہیں تو پھر ان کو نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، پھر آپ کو بھی اس ملک کے عوام کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا، اب فیصلہ وزیراعظم کو کرنا ہوگا کہ یا تو یہ معاملہ پارلیمان میں لائیں یا اعتراف کرلیں کہ انہوں نے جھوٹ بولا اور معافی مانگ لیں۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے جھوٹ بولا ہے تو غلطی کا اعتراف کریں اور معافی مانگ لیں کہ مجھے کرسی کی فکر تھی، میں پریشان تھا تو آخری حربے کے طور پر میں نے جھوٹ بولا کہ مجھے بیرونی دنیا سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دھمکی آمیز خط ہے تو اس کو پارلیمان میں پیش کیا جائے، ابھی تک کسی کو یہ علم نہیں کہ واقعی کوئی دھمکی آمیز خط ہے یا نہیں۔

وزیراعظم کو موصول ہونے والے مبینہ دھمکی آمیز خط سے متعلق ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ان کے علم میں نہیں کہ وہ خط ملک کی عسکری قیادت نے دیکھا ہے یا نہیں، اگر وہ خط عسکری قیادت نے دیکھا ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ اس کو قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کیا جائے اور اس معاملے پر بات کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:اسپیکر نے 14 روز کے اندر اجلاس نہ بلا کر آئین کی خلاف ورزی کی، شہباز شریف

ان کا کہنا تھا کہ میری کئی سفارت کاروں سے بات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ کسی بیرونی ملک نے ہمیں اس طرح کا خط لکھا ہو اور دھمکی دی ہو لیکن اگر ایسا ہوا ہے تو یہ بہت تشویشناک بات ہے اور اس پر پوری پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر کوئی لائحہ عمل بنانا چاہیے۔

شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ ہم نے مسلم لیگ ق کو دعوت دی تھی کہ وزیراعظم عمران خان کے تحریک عدم اعتماد میں شامل ہوجائیں یا اس حکومت کا بوجھ برداشت کرلیں، اب انہوں نے جو فیصلہ کیا ہے وہ انہیں مبارک ہو۔

ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ رابطوں سے متعلق سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم ایک خود مختار جماعت ہے، وہ کسی کے تابع نہیں، وہ حکومت کا حصہ رہے ہیں، حکومت کو چھوڑنا چاہتے ہیں، ہم نے ان کو دعوت دی ہے اور امید ہے کہ وہ ایک بہتر فیصلہ کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں:بلاول نے اداروں کے ’نیوٹرل‘ ہونے سے فائدہ اٹھانے کا تاثر رد کردیا

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 172 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہے، ان شااللہ ووٹنگ کے روز آپ ہمارے ساتھ اس سے زیادہ اراکین دیکھیں گے۔

مسلم لیگ ق کے ایم این اے طارق بشیر چیمہ کو مسلم لیگ ن کی جانب سے کسی پیشکش سے متعلق سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھاکہ ہم نے انہیں کوئی آفر نہیں کی، ہم نے کسی کو کوئی پیش کش نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا جو لوگ ہمارے ساتھ آرہے ہیں وہ وزیراعظم کی نالائقی، نا اہلی کے باعث ہونے والے ملکی حالات کی وجہ سے ہمارے ساتھ آ رہے ہیں، آج ہمارا ملک اتنا کمزور ہوچکا کہ ہمیں دھمکی آمیز خطوط موصول ہو رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024