وزیر اعظم کے ٹرمپ کارڈ کے بعد پنجاب بڑی سیاسی تبدیلی کیلئے تیار
قومی اسمبلی میں مشترکہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے کچھ لمحات بعد ہی وزیر اعظم عمران خان نے مسلم لیگ (ق) پنجاب کے صدر چوہدری پرویز الہٰی کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش کر کے اپنا 'ٹرمپ کارڈ' کھیلا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس واحد پیشکش نے وزیر اعظم عمران خان کو نہ صرف پنجاب میں اپنی جماعت کی حکمرانی کو ان کے حریفوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے بچانے میں مدد فراہم کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ق) کو دیگر اتحادی جماعتوں اور ناراض اراکین اسمبلی کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی میں عمران خان کو بچانے کے لیے میدان میں اتارا ہے۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن، مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل کرنے میں کیوں ناکام ہوئی؟
ایک روز قبل ہی حکمران جماعت پی ٹی آئی سیاسی جنگ ہارتی ہوئی نظر آرہی تھی، وزیر اعظم عمران خان نے اتوار کو پریڈ گراؤنڈ میں اپنی طویل تقریر کا اختتام کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف بین الاقوامی سازش کی جا رہی ہے اور پاکستان میں کچھ عناصر غیر ملکی فنڈنگ کے ذریعے ان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔
ہر اچھے برے دور میں عثمان بزدار کو تحفظ فراہم اور انہیں ’وسیم اکرم پلس‘ کہنے والے عمران خان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا وقت شروع ہونے کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حیران کن قربانی کے عمل کو درست اقدام تصور کیا جا رہا ہے۔
اب بھی بہت سے سیاست دانوں کا خیال ہے کہ یہ ’ٹرمپ کارڈ‘ کافی دیر سے سامنے آیا ہے جس کی وجہ سے وزیر اعظم کے پاس چال چلنے اور اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے بہت کم وقت بچا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ آخری لمحات میں عثمان بزدار کا استعفیٰ طلب کرنے کا اقدام کافی دیر سے اٹھایا گیا کیونکہ عمران خان کے نئے معتمد پرویز الہٰی کے پاس انتخابی مہم چلانے اور پی ٹی آئی کے ناراض عناصر کے ساتھ ساتھ ان اتحادی جماعتوں کو منانے کے لیے بہت کم وقت بچا ہے جنہوں نے حکمران جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: 'وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے استعفیٰ دے دیا'
انہوں نے مزید کہا کہ اگر عمران خان نے دو ہفتے پہلے یہ زبردست اقدام اٹھایا ہوتا تو پرویز الہٰی میں وہ تمام ہمت اور مہارت موجود ہے کہ وہ مطلوبہ ناراض اراکین قومی اسمبلی کو حکمران اتحاد میں واپسی کے لیے قائل کر سکیں۔
یہاں تک کہ جب پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان کوئی واضح بات چیت نہیں ہوئی تھی تو اس وقت بھی پرویز الہٰی نے اپنی رہائش گاہ پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر دفاع پرویز خٹک پر مشتمل حکومتی ٹیم سے کہا تھا کہ وہ اتحادی جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور ایم کیو ایم کو راضی کریں اور ان کو دھوکا اور محض 'لولی پاپ' پیش کرنے کے بجائے ان کے ساتھ کیے گئے تمام وعدوں کو پورا کریں۔
پرویز الہٰی نے دوران ملاقات وفد سے کہا تھا کہ وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے ان کی نامزدگی کا عوامی سطح پر اعلان کریں۔
چونکہ پرویز الہٰی کے پاس وزیر اعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں ووٹوں کی حتمی گنتی سے قبل صرف 7 روز باقی ہیں، اس لیے وزیر اعظم عمران خان اپنے نامزد امیدوار پر اعتماد کر رہے ہیں کہ وہ 4 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن اپوزیشن کو شکست دینے میں ان کی مدد کریں۔
دوسری جانب پرویز الہٰی فوری طور پر میدان عمل میں اتر گئے ہیں اور اعلیٰ اختیارات کے حامل وفد کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے پارلیمنٹ لاجز میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔
ایک سیاسی مبصر کے مطابق نسبتاً غیر یقینی حالات کے پیش نظر پرویز الہٰی کو عمران خان کو بچانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن وہ پنجاب میں مضبوط قدم جمانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور بقیہ مدت کا لطف اٹھانے کے ساتھ ساتھ اگلے عام انتخابات میں ایک بڑا حصہ بھی حاصل کر سکیں گے۔
مزید پڑھیں: آنے جانے کا سلسلہ ووٹنگ سے ایک گھنٹہ پہلے تک جاری رہے گا، فواد چوہدری
جہاں ایک طرف مسلم لیگ (ق) کا کیمپ حکومت کی جانب سے شاندار پیشکش ملنے پر خوش ہے، وہیں چوہدری خاندان کے کچھ لوگ پی ٹی آئی کا ساتھ دیے جانے پر خوش نہیں اور اس معاملے پر ان کی بات چیت رات گئے تک جاری رہی، خوشیاں منانے والے خاندان کے ارکان پنجاب اسمبلی میں پرویز الہٰی کو جلد وزیر اعلیٰ منتخب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز الہٰی نے برطانیہ میں جہانگیر ترین سے بھی رابطہ کیا اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ان کے گروپ کی حمایت مانگی، اگر 18 اراکین صوبائی اسمبلی پر مشتمل جہانگیر ترین گروپ اپوزیشن کے حق میں ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرتا ہے تو پرویز الہٰی کے لیے یہ سفر آسان نہیں ہوگا۔
پنجاب کے محاذ پر وزیر اعلیٰ کے طور پر پرویز الہٰی کی نامزدگی نے مشترکہ اپوزیشن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی عثمان بزدار کے خلاف صوبائی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی منظوری کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اور ان کے لیے اپنی مرضی کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔
اپوزیشن، پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم کرنے کے لیے بہت زیادہ پُراعتماد تھی کیونکہ وہ وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کے لیے درکار 186 ووٹوں سے زیادہ ووٹس حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہے تھے۔
پنجاب میں اپنی پوزیشن بچانے کے لیے پرویز الہٰی کے پہلے ہی مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور ترین گروپ کے کئی اراکین صوبائی اسمبلی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں، وہ وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنے انتخاب کے بارے میں بے فکر نظر آتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ضرورت سے زیادہ ایم پی ایز کی حمایت حاصل کر سکتے ہیں جیسا انہوں نے اسمبلی اسپیکر کے انتخاب کے دوران کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: (ق) لیگ نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا، شہباز گل
پنجاب کے سینئر سیاستدانوں کا خیال ہے کہ گجرات کے چوہدری ایک خاص مقام اور طاقت کے حامل ہیں جس کی وجہ سے وہ صرف ایک کال پر بہت سے سیاستدانوں کو اپنے ارد گرد جمع کر سکتے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پاس 183 اراکین صوبائی اسمبلی ہیں اور مسلم لیگ (ق) کے پاس 10 ووٹ ہیں، اپوزیشن کے پاس مسلم لیگ (ن) کے 161 اور پیپلز پارٹی کے 7 ووٹس ہیں، راہ حق پارٹی کے پاس ایک ووٹ ہے اور آزاد امیدوار جگنو محسن کے حال ہی میں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کے بعد آزاد امیدوار کی تعداد چار ہو گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے ارکان کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے مسلم لیگ (ق) کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کی پیشکش کے دیگر معنی بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی نہ صرف مسلم لیگ (ن) کو کچلنے کی کوشش کریں گے بلکہ اگلے ڈیڑھ سال میں اپنی پارٹی کو اتنا مضبوط بھی کر سکتے ہیں کہ صوبے میں پی ٹی آئی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں۔
چونکہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل بہت سے سیاستدانوں کو مختلف جماعتوں سے پی ٹی آئی میں لایا گیا تھا اس لیے اگلے انتخابات سے قبل وزیر قانون راجا بشارت اور چوہدری ظہیرالدین کی مسلم لیگ (ق) میں واپسی سمیت یہ تمام اراکین جہاں سے آئے تھے وہیں واپس جاسکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: طارق بشیر چیمہ وزارت سے مستعفی، تحریک عدم اعتماد میں وزیراعظم کےخلاف ووٹ دینے کا اعلان
اگرچہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ بطور وزیر اعظم منتخب ہونے کے لیے پرویز الہٰی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش کریں، لیکن شریف خاندان کے اندر پائے جانے والے تنازع نے انہیں جرأت مندانہ فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔
شہباز شریف کی لاہور کی رہائش گاہ پر چوہدریوں سے ملنے کے کئی دن بعد مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے صدر سے کچھ سوالات کیے ہیں لیکن ان کا کوئی جواب نہیں ملا۔