کیا انگلیوں کی لمبائی اور کووڈ 19 کی شدت میں تعلق ہوتا ہے؟
کیا آپ کو معلوم ہے کہ عام طور پر مردوں کی شہادت کی انگلی ان کی تیسری انگلی سے چھوٹی جبکہ خواتین میں شہادت کی انگلی تیسری انگلی (رنگ فنگر) سے بڑی ہوتی ہے؟
اس کا جواب ہمارے ہارمونز میں چھپا ہے، مثال کے طور پر مردوں کی تیسری انگلی بڑی ہونا ٹسٹوسیٹرون کی زیادہ سطح جبکہ شہادت کی انگلی بڑی ہونا ایسٹروجن کی زیادہ سطح کا عندیہ دیتا ہے۔
مگر کیا انگلیوں کی لمبائی اور کووڈ 19 کی شدت میں بھی تعلق موجود ہے؟
اس کا جواب ہاں ہے یا کم از کم ایک نئی طبی تحقیق میں تو یہی دعویٰ کیا گیا ہے۔
ویلز کی سوانسیا یونیورسٹی کی تحقیق میں دونوں ہارمونز کی سطح اور کووڈ سے زیادہ بیمار ہونے کے تعلق پر جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے بیشتر افراد میں علامات کی شدت معمولی ہوتی ہے مگر ایسے افراد بھی کم نہیں جن کو ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی شرح عمر (معمر افراد زیادہ بیمار ہوتے ہیں) اور جنس (خواتین کے مقابلے میں مردوں میں اس کی شدت زیادہ ہونے کا امکان ہوتا ہے) میں مختلف ہوتی ہے۔
اسی کو دیکھتے ہوئے محققین نے ٹسٹوسیٹرون اور کووڈ 19 کی شدت کے درمیان تعلق کی زیادہ گہرائی میں جاکر جانچ پڑتال کی گئی۔
محققین نے مشاہدہ کیا کہ کہ جن کی شہادت کی انگلی تیسری کے مقابلے میں بڑی ہوتی ہے ان میں کووڈ کی سنگین علامات کا امکان دیگر سے زیادہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ مردوں اور خواتین دونوں میں کووڈ 19 کی شدت کا ٹسٹوسیٹرون کی کم سطح اور ایسٹروجن کی زیادہ سطح سے ممکنہ تعلق موجود ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہسپتال میں زیرعلاج مریضوں کے مشاہدے سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ جن افراد میں ٹسٹوسیٹرون کی سطح کم اور ایسٹروجن کی زیدہ ہوتی ہے ان میں کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے، اسی سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ معمر مرد زیادہ خطرے والے گروپ کا حصہ کیوں ہیں۔
خیال رہے کہ عمر بڑھنے سے مردوں میں ٹسٹوسیٹرون کی سطح کم ہوتی ہے اور بڑھاپے میں یہ سب سے کم ہسطح پر ہوتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ اہم دریافت ہے کیونکہ اس سے یہ شناخت کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ کن افراد میں کووڈ 19 کی شدت زیادہ ہونے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
کووڈ 19 کے علاج کے لیے اینٹی اینڈروگن (ٹسٹوسیٹرون ) ٹرائلز پر کام کیا جارہا ہے اور مھققین کے مطابق ہماری تحقیق سے کووڈ 19 کو مزید سمجھنے میں مدد ملے گی اور اینٹی وائرل ادویات کو شناخت کرنے کا عمل بہتر ہوگا جس سے ہسپتال میں قیام مختصر ہوگا اور اموات کی شرح بھی گھٹ جائے گی۔
محققین نے بتایا کہ ان کا تحقیقی کام جاری رہے گا اور زیادہ لوگوں کو اس کا حصہ بنایا جائے گا، توقع ہے کہ نتائج بہت جلد سامنے آجائیں گے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئے۔