لاپتا افراد کے مسئلے کا بطور طنز استعمال، علی زیدی کی شدید تنقید کے بعد معذرت
وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے لاپتا افراد کے مسئلے کو سیاسی طنز کے لیے استعمال کرنے پر معافی مانگ لی۔
انہوں نے مریم نواز اور حمزہ شہباز کی ایک تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’لاپتا افراد کے اہلِ خانہ ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر‘۔
مذکورہ تصویر مسلم لیگ (ن) کی کل لاہور سے اسلام آباد کے لیے نکلنے والی ریلی کی تھی جس میں مریم نواز ہاتھ میں نواز شریف کی تصویر تھامے حمزہ شہباز کے ہمراہ ایک ٹرک پر سوار نظر آرہی تھیں۔
لاپتا افراد جیسے سنجیدہ مسئلے کو بطور طنز استعمال کرنے پر وفاقی وزیر کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
ان ہی کی ساتھی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے علی زیدی کو مخاطب کیے بغیر ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ’پاکستان میں لاپتا افراد کا مسئلہ سنجیدہ اور دلخراش ہے، کوئی مذاق نہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ جبری گمشدگی کی مخالفت کی ہے، جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے سے متعلق ہماری حکومت کا بل منظوری کے حتمی مرحلے میں ہے۔
علی زیدی کی ٹوئٹ کو کوٹ کر کے معروف سماجی رہنما جبران ناصر نے کہا کہ حکمران جماعت فطرتاً جگت باز صحیح، مگر جبری گمشدگیوں کے متاثرین کا غم کوئی لطیفہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ان ماؤں، بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں کی توہین ہے جو اپنے لاپتا پیاروں کی تصویر اٹھائے ریاست سے سوال پوچھنے کی جرأت کرتی ہیں، مظلوم کی مظلومیت کا مذاق اڑانے والے خود ایک دن مذاق بن جائیں گے۔
ایک اور معروف وکیل ریما عمر نے علی زیدی کے ریمارکس کے جواب میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ نقل کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’کسی فرد کا لاپتا ہونا انسانیت کے خلاف جرم ہے، وزیر اعظم اور کابینہ کے اراکین ملک کے عوام کی خدمت کے لیے ہیں، ریاست کا لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ردِعمل افسوسناک ہے‘۔
ان کے علاوہ نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد نے بھی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’صرف وہ افراد لاپتا افراد کے خاندانوں کا مذاق اڑا سکتے ہیں جن کے ضمیر لاپتا ہیں‘۔
بعد ازاں علی زیدی نے اپنی ٹوئٹ میں معافی مانگتے ہوئے کہا کہ اگر میری پوسٹ سے جبری گمشدگی کے شکار کسی فرد کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں کسی کو غیر قانونی حراست میں نہیں لیا گیا بلکہ میں نے خود گزشتہ ادوارِ حکومت میں لاپتا ہوجانے والے 100 سے زائد افراد کو بازیاب کرانے میں مدد دی تھی۔
ساتھ ہی انہوں نے وزارت انسانی حقوق کو ٹیگ کر کے کہا کہ وزارت اس غیر قانونی عمل کے خلاف قانون سازی کر رہی ہے۔