’اقتدار کی دہلیز پر چور دروازے کے بجائے عوام کے ووٹوں سے قدم رکھوں گا‘
سابق وفاقی وزیر داخلہ و سینئر سیاست دان چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ گزشتہ 4 سالوں میں مجھے بہت بار سیاسی لالچ دی گئی لیکن میں چور دروازے سے اقتدار کی دہلیز پر قدم نہیں رکھنا چاہتا میں عوام کے ووٹوں کے ذریعے ایوان میں جانے کی فیصلہ کروں گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ میں گزشتہ تین چار روز سے چکری میں ہوں یہاں سے باہر نہیں گیا تو عمران خان سے ملاقات کیسے ہوسکتی ہے‘۔
بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں چھپ کر ملاقات جاری رکھنے والا نہیں ہوں، عمران خان ایچیسن کالج سے میرے دوست ہیں لیکن ان کی اور میری سیاست الگ الگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان سے 2018 کے انتخابات سے قبل میجر (ر) عامر کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی تھی، اس دوران عمران خان نے پارٹی میں اہم عہدہ دینے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میری پارٹی میں آجائیں، تمام اختیارات آپ کو دے دوں گا، پارٹی کا ٹکٹ بھی آپ کی صوابدید پر ہوگا‘۔
تاہم چوہدری نثار نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے سے انکار کردیا اور انہیں کہا کہ ’عمران خان، جس شخص کے ساتھ میری 35 سال کی دوستی ہے اس کے ساتھ نہیں چل سکا تو آپ کےساتھ تو ایک روز بھی نہیں چل سکتا‘۔
’میں نے نواز شریف کے گرد کرپشن نہیں دیکھی‘
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ ’نواز شریف تو کرپٹ ہیں، میرا کیریئر صاف ستھرا ہے‘۔
چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ’میاں نواز شریف مجھے ناپسند کرتے ہیں اور میں بھی ان کے بارے میں یہی جذبات رکھتا ہوں، لیکن میں انہیں کرپٹ نہیں کہتا، غیب کا علم اللہ جانتا ہے لیکن میں نے ان کے قریب کرپشن نہیں دیکھی، اگر میری نظروں سے کوئی ایسی چیز گزرتی تو پارٹی سے بہت پہلے ہی دوری اختیار کرچکا ہوتا‘۔
پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں شرکت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے جلسے میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے نہ ہی میں جلسے میں شرکت کر رہا ہوں‘۔
سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے سے متعلق چوہدری نثار نے کہا کہ میں 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ٹکٹ نہ دینے پر گزشتہ 4 سال سے کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی نہ مجھے کوئی جلدی ہے، میں وقتی فائدے کے لیے پارٹیاں تبدیل نہیں کرتا، سیاست سے متعلق فیصلے کا جواب عام انتخابات میں مل جائے گا۔
’ووٹرز کے فیصلے پر سر تسلیم خم کروں گا‘
انہوں نے کہا کہ ان کا فیصلہ ووٹروں کے مشورے پر مبنی ہوگا، اگر ووٹرز نے کہا کہ آزاد حیثیت سے انتخابات لڑو تو میں آزاد حیثیت سے لڑتے ہوئے سر تسلیم خم کروں گا۔
چار سال سے سیاست سے جدا رہنے پر انہوں نے کہا کہ جب تک اللہ سیاست ختم نہ کرے اس وقت تک کسی کو سیاست سے باہر نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ والد کے انتقال کے بعد جائیداد کی تقسیم کا مرحلہ آیا تو میں نے اس حویلی کا انتخاب کیا کیونکہ وادی سواں کے لوگوں سے ہی میری سیاست ہے، میں یہاں آکر خوش ہوتا ہوں، میرے گھر کے سامنے سے گزرنے والے دریا کے مناظر کچھ اور ہی ہیں۔
اپنے آبائی علاقے سے انسیت کا اظہار کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ میرا حلقہ ٹیکسیلا سے وادی سواں تک پھیلا ہوا ہے، جنرل پرویز مشرف کے دور میں مجھے شکست دینے کے لیے حلقہ تقسیم کردیا گیا لیکن اس کے باوجود میرے حلقے کے لوگوں نے مجھے ووٹ دے کر کامیابی دلوائی اور مجھے پارلیمنٹ تک بھجوایا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے این اے 59 اور 62 دونوں سے کامیابی حاصل کی اور اس میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال میں مجھے سیاسی لالچ دینے کی کوشش کی گئی لیکن میں چور دروازے سے اقتدار کی دہلیز پر قدم نہیں رکھنا چاہتا، میں عوام کے ووٹوں کے ذریعے ایوان میں جانے کی فیصلہ کروں گا۔
’سیاسی مخالفین میرے نام کے جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹ چلا رہے ہیں‘
سماجی ویب سائٹس پر اکاؤنٹ سے متعلق چوہدری نثار نے بتایا کہ سیاسی مخالفین سوشل میڈیا پر میرے نام سے اکاؤنٹس بنائے ہوئے ہیں ان کے ذریعے غلط معلومات فراہم کی جاتی ہے اور میرے لیے ہر غلط معلومات کا جواب دینا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے سے رجوع کیا، جلد اپنا آفیشل اکاؤنٹ بناؤں گا جس سے غلط معلومات کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
سینئر سیاستدان نے موجودہ دور میں ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرضوں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے، قرضوں کی بروقت ادائیگی ضروری ہے جس کے بارے میں پوری قوم کو سوچنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ اس معاملے پر قوم کے اتفاق رائے سے ایک قومی معاشی پالیسی بنانی چاہیے اور اس میں تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت حاصل کرنی چاہیے، اس وقت ملک کو بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے، حکومت اور اپوزیشن سب بند گلی میں کھڑے ہیں، اس بند گلی سے نکلنے کی ضرورت ہے۔