• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

پی ٹی آئی ایم این اے ملک احمد حسین ڈیہر کا یوٹرن، وزیراعظم کو ووٹ دینے کا اعلان

شائع March 25, 2022
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ملک احمد حسین ڈیہر نے کہا ہے کہ وہ مسائل حل ہونے پر وزیراعظم کا ساتھ دیں گے— فوٹو: ڈان نیوز
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ملک احمد حسین ڈیہر نے کہا ہے کہ وہ مسائل حل ہونے پر وزیراعظم کا ساتھ دیں گے— فوٹو: ڈان نیوز

چند دن قبل اپوزیشن سے ہاتھ ملانے والے تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ملک احمد حسین ڈیہر نے اپنے مؤقف میں تبدیلی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں وزیر اعظم عمران خان کا ساتھ دیں گے۔

جمعہ کو قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جب صحافیوں نے ملک احمد حسین ڈیہر سے سوال کیا کہ وہ عدم اعتماد کے ووٹ پر کہاں کھڑے ہیں تو انہون نے جواب دیا کہ خدا کے فضل سے میں حکومت کے ساتھ ہوں۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کا انتہائی اہم اجلاس تحریک عدم اعتماد پیش ہوئے بغیر ملتوی

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے تحفظات کو دور کیا گیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ وہ دور کیے جا رہے ہیں، بات چیت ہو رہی ہے۔

ملک احمد حسین ڈیہر نے اعتراف کیا کہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے اور کہا کہ میرے کچھ مسائل ہیں جو وہ وزیر اعظم حل کریں گے، وہ مسائل حل کیے جارہے ہیں اور اس کے بعد میں ان کی حمایت کروں گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ وہ اب بھی حکمران جماعت کا حصہ ہیں۔

خیال رہے کہ ملک احمد حسین ڈیہر پی ٹی آئی کے ان منحرف اراکین قومی اسمبلی میں سے ایک ہیں جو مبینہ طور پر اس ماہ کے اوائل میں اسلام آباد میں سندھ ہاؤس میں موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اتحادیوں کی حمایت اسی سرپرائز کا حصہ ہے جس کا ذکر وزیراعظم نے کل کیا تھا، فواد چوہدری

یہ انکشاف وزیر اعظم عمران اور کابینہ کے کچھ وزرا کی جانب سے اپوزیشن پر عدم اعتماد کی قرارداد پر اہم ووٹ سے قبل ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرنے کے ایک دن بعد سامنے آیا تھا اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں سندھ ہاؤس ارکان کی خرید و فروخت کا مرکز بن گیا ہے۔

تاہم جہاں ایک طرف ان اراکین پر پیسے کے عوض ضمیر بیچنے کے الزامات عائد کرتے رہے، وہیں سندھ ہاؤس اپنی ٹیمیں بھیجنے والے متعدد ٹی وی چینلز نے تقریباً ایک درجن پی ٹی آئی اراکین سے بات کر کے اس دعوے کی تصدیق کی جہان اراکین نے کہا کہ انہیں حکمران جماعت سے شکایات ہیں اور وہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیں گے۔

چند روز بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ملک احمد حسین ڈیہر نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ وزیر اعظم عمران خان خود لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے منحرف ایم پی اے سے ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مل رہے ہیں اور سوال کیا تھا کہ ایسی صورتحال میں پی ٹی آئی اپنے کسی رکن قومی اسمبلی یا رکن صوبائی اسمبلی کو اپوزیشن سے ہاتھ ملانے پر کیسے کرپٹ کہہ سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: رکن کے ڈالے گئے ووٹ پر یہ کہنا کہ شمار نہیں ہوگا، ووٹ کی توہین ہے، چیف جسٹس

جب ان سے سوال کیا گیا کہ وزیر اعظم کے خلاف ووٹ دینے کے لیے کتنے پیسوں کی پیشکش کی گئی، تو رکن قومی اسمبلی نے انہوں نے الٹا سوال کیا کہ وزیر اعظم نے مسلم لیگ (ن) کے اراکین قومی اسمبلی سے ملاقات کی ہے، ان کو کتنے پیسوں کی پیشکش کی ہے۔

ملک احمد حسین ڈیہر نے وزیراعلیٰ بزدار پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے تھے اور کہا تھا کہ انہوں نے خود وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں اپنے کام کے لیے رشوت دی تھی اور وہ وزیر اعظم کے سامنے رشوت کا کیس ثابت کر سکتے ہیں۔

انہوں نے وزیر اعظم کو کھلا چیلنج دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میں وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں کرپشن ثابت کر دیتا ہوں تو وزیر اعظم کو استعفیٰ دے دینا چاہیے، اگر میں کرپشن ثابت نہ کر سکا تو استعفیٰ دوں گا اور سیاست بھی چھوڑ دوں گا۔

اس کے بعد پی ٹی آئی نے ملک احمد حسین ڈیہر سمیت 13 اراکین قومی اسمبلی کو مبینہ انحراف پر شوکاز نوٹس جاری کیے تھے اور ان سے 26 مارچ تک وضاحت طلب کی تھی کہ انہیں منحرف قرار دے کر قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر نااہل کیوں نہ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے میں پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈالنے پر نااہلی نہیں، سپریم کورٹ بار

بعد ازاں حکومت نے اپنا سخت مؤقف تبدیل کیا تھا اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے ناراض اراکین قومی اسمبلی سے پارٹی میں واپس آنے کی اپیل کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا تھا کہ ان سے کوئی سوال جواب نہیں کیے جائیں گے۔

حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک صدارتی ریفرنس بھی دائر کیا ہے جس میں اعلیٰ عدلیہ کی رائے طلب کی گئی ہے کہ کیا منحرف اراکین قومی اسمبلی کے ووٹوں کو شمار کیا جا سکتا ہے اور کیا آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف کی بنیاد پر نااہلی مستقل ہوگی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024