شمالی کوریا کا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ، امریکا کی مذمت
شمالی کوریا نے آئی سی بی ایم کا تجربہ کیا ہے، اس تجربے کو اب تک کا سب سے بڑا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم ) تجربہ سمجھا جا رہا ہے ، شمالی کوریا کے تجربے کو جنوبی کوریا اور جاپان کے فوجی حکام نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے تجربات پر خود ساختہ پابندی کا ڈرامائی خاتمہ قرار دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یہ 2017 کے بعد سے جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست شمالی کوریا کی جانب سے سب سے بڑے میزائل کی مکمل صلاحیت کا پہلا اظہار ہے، اس تجربے کے بعد شمالی کوریا امریکا میں کسی بھی مقام تک جوہری وار ہیڈز پہنچانے کے قابل ہو سکتا ہے۔
بڑے ہتھیاروں کے تجربات میں شمالی کوریا کی واپسی امریکا کی قومی سلامتی کے لیے ایک نیا سر درد ہے، شمالی کوریا کے تجربات یوکرین پر روس کے حملے پر جواب اقدامات کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن اور جنوبی کوریا کی آنے والی قدامت پسند انتظامیہ کے لیے ایک نیا چیلنج بن کر سامنے آر ہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:شمالی کوریا کا ایک اور میزائل تجربہ
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے ایک بیان میں تجربے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ تجربہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس سے خطے میں بلا ضرورت تناؤ میں اضافہ ہوگا اور سلامتی کی صورتحال غیر مستحکم ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوگا۔
شمالی کوریا نے 2017 سے اپنے آئی سی بی ایم اور جوہری تجربات کو روک رکھا تھا لیکن اس نے اپنی سلامتی کے لیے ضروری ہتھیاروں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب تک امریکا اور اس کے اتحادی ہمارے خلاف پابندیوں اور فوجی مشقوں جیسی مخالف پالیسیاں برقرار رکھتے ہیں اس وقت تک ایسے تجربات ضروری ہیں۔
جنوبی کوریا کے صدر، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کو اپنی انتظامیہ کا ایک بڑا ہدف بنائے رکھا، انہوں نے بھی اس تجربے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ تجربات اس پابندی کی خلاف ورزی ہے جس کا چیئرمین کم جونگ ان نے خود عالمی برادری سے وعدہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:شمالی کوریا کا ہائپرسونک گلائیڈنگ میزائل کا کامیاب تجربہ
جاپانی وزیر اعظم نے بھی تجربے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تازہ ترین میزائل تجربہ ناقابل قبول تشدد کا عمل ہے۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ تازہ ترین آئی سی بی ایم تجربے نے جنوبی کوریا کو اپنے چھوٹے بیلسٹک اور فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں کا تجربہ کرنے پر مجبور کردیا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ اس کے پاس میزائل لانچنگ سائٹس، کمانڈ اور سپورٹ سہولیات اور دیگر اہداف کو شمالی کوریا میں ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت اور تیاری موجود ہے۔
امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے تجربے کے بعد جاپان اور جنوبی کوریا کے ہم منصبوں سے فون پر بات کی۔
جاپانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ شمالی کوریا کا یہ اقدام بین الاقوامی برادری کے لیے ایک واضح اور سنگین چیلنج ہے۔
یہ بھی پڑھیں:شمالی کوریا کا کم فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل کا تجربہ
جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ٹیلی فونک بات چیت کے دوران جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ اور امریکی وزیر خارجہ نے شمالی کوریا کے خلاف فیصلہ کن ردعمل کا مطالبہ کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کےاضافی ضروری اقدامات پر اتفاق کیا۔
یہ تازہ ترین آئی سی بی ایم کا تجربہ اس سال شمالی کوریا کا کم از کم 11 واں میزائل تجربہ ہے۔
جاپانی حکام کا کہنا ہے کہ تازہ تجربہ آئی سی بی ایم کی ایک نئی قسم ہے جس نے تقریباً 6,000 کلومیٹر (3,728 میل) کی اونچائی پر اور اپنے لانچنگ کے مقام سے 1,100 کلومیٹر (684 میل) کے فاصلے پر تقریباً 71 منٹ تک پرواز کی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل شمالی کوریا نے 27 فروی کو بھی ایک میزائل کا تجربہ کیا تھا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ایک بیلسٹک میزائل ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی، جنوبی کوریا کا بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران میزائلوں کا تجربہ
جنوبی کوریا اور جاپان کے فوجی حکام کا تجربے پر رد عمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کے گزشتہ ماہ میں ریکارڈ تعداد میں تجربات کے بعد رواں ماہ یہ پہلا تجربہ ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے بتایا تھا کہ شمالی کوریا نے اپنے مشرقی ساحل سے سمندر کی جانب ایک مبینہ بیلسٹک میزائل داغا ہے، میزائل سنان کے قریب ایک مقام سے فائر کیا گیا جہاں پیانگ یانگ کا بین الاقوامی ہوائی اڈا واقع ہے۔
ہوائی اڈا اس سے پہلے بھی میزائل تجربات کا مقام رہا ہے، جہاں سے 16 جنوری کو مختصر فاصلے تک مار کرنے والے 2 بیلسٹک میزائل کے تجربات بھی کیے گئے تھے۔
جے سی ایس کا کہنا تھا کہ اتوار کے روز فائر کیے گئے میزائل نے تقریباً 620 کلومیٹر (390 میل) کی زیادہ سے زیادہ بلندی تک 300 کلومیٹر (190 میل) تک کا فاصلہ طے کیاتھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ پرواز کا ڈیٹا ماضی میں کیے گئے ٹیسٹوں سے ملتا جلتا نہیں ہے اور رائے دی کہ یہ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:شمالی کوریا کا ’ایٹمی صلاحیت‘ کے حامل پہلے کروز میزائل کا تجربہ
جاپان کے وزیر دفاع نوبو کیشی کا اپنے ایک ٹیلیویژن بیان میں کہنا تھا کہ سال کے آغاز سے ہی مسلسل تجربات کیے جا رہے ہیں، شمالی کوریا تیزی سے بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی تیار کر رہا ہے، انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا جاپان، خطے اور عالمی برادری کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
امریکی فوج کی انڈو پیسیفک کمانڈ کا کہنا تھا کہ امریکا نے تازہ ترین تجربے کی مذمت کی اور شمالی کوریا سے عدم استحکام پیدا کرنے والے اقدامات روکنے کا مطالبہ کیا، تاہم اس تجربے سے فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔
اس سے قبل شمالی کوریا کی جانب سے آخری تجربہ 30 جنوری کو ہواسونگ 12 نامی درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کا گیا تھا۔
مذکورہ تجربہ سال2017 کے بعد سے سب سے بڑا ہتھیار کا تجربہ تھا، ہواسونگ-12 نے تقریباً 2,000 کلومیٹر (1,200 میل) کی بلندی اور 800 کلومیٹر (500 میل) کی حد تک پرواز کی۔