ایمنسٹی اسکیم پر حکومت آئی ایم ایف کو قائل کرنے میں ناکام
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) حال ہی میں اعلان کردہ ایمنسٹی پر حکومتی وضاحت سے قائل نہیں ہوا اور اسے وزیراعظم کی جانب سے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی فنانسنگ اور مالی اثرات کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس صورتحال میں آئی ایم ایف مشن اور حکومت کے درمیان 6 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت کا جاری ساتواں جائزہ جلد حتمی نتیجے پر نہ پہنچنے کا امکان ہے اور ہوسکتا ہے کہ ایک ارب 90 کروڑ ڈالر کی 2 اقساط جون میں وفاقی بجٹ کے قریب جا کر ملیں۔
باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کے ساتھ پالیسی کی سطح کی بات چیت کے حتمی مرحلے میں آئی ایم ایف اسٹاف مشن نے حکومت کے اعلان کردہ ریلیف اقدامات کے اثرات اور مالیاتی ضمانتوں پر مزید سوالات اٹھائے۔
یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف کی 6 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت کی اگلی قسط تعطل کا شکار ہونے کا خدشہ
آئی ایم ایف مشن صنعتی شعبے میں کالا دھن سفید کرنے کی اسکیم کے حق میں دیے گئے دلائل سے بالکل غیر مطمئن نظر آیا۔
ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ کی سربراہی میں پاکستانی ٹیم کو آئی ایم ایف عہدیداروں نے کہا کہ ’آپ نے معاشی اور مالیاتی پالیسی کی ایک یادداشت تحریر کی اور اس پر دستخط کیے کہ اب مزید کوئی ایمنسٹی اسکیم نہیں ہوگی‘۔
اس کے علاوہ فنڈ نے چھٹے جائزے کے لیے حکومت کی جانب سے منظور کردہ منی بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس کا استثنیٰ ختم کر کے ٹیکس تفاوت واپس لینے کے اقدام کے باوجود تیسری ٹیکس استثنیٰ اسکیم پر تنقید کی۔
خیال رہے کہ چھٹے جائزے کے تحت کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں 9 ماہ سے تعطل کا شکار آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوا تھا اور ایک ارب ڈالر کی قسط ملی تھی۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کا ذاتی انکم ٹیکس میں تبدیلی کا مطالبہ
وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کے تحریری بیانِ حلفی میں کہا گیا تھا کہ ’ہم مزید ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہ دینے اور ٹیکس استثنیٰ یا مراعات کے اقدامات سے بچنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں‘۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے حکومتی ریلیف اقدامات کے نتیجے میں مرتب ہونے والے مالیاتی اثرات کا حساب کتاب لگایا ہوا تھا جو حکومت کے فراہم کر دہ تحمینوں اور اعداد و شمار سے کہیں زیادہ تھا۔
اس کے علاوہ اطلاعات یہ بھی ہیں آئی ایم ایف مشن کے اراکین نے شعبہ توانائی کے اسٹیک ہولڈرز بشمول آئل کمپنیز اور ریفائنریز سے ملاقاتیں کی تھیں اور مختلف اعداد و شما اکٹھا کیے تھے۔
قبل ازیں شوکت ترین نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف نے وزیراعظم کے ریلیف پیکج کے مالی بوجھ کو صوبوں کے ساتھ تقسیم کرنے کا سمجھوتہ مانگا ہے جو پیر کے روز پیش کردیا جائے گا جس کے بعد پالیسی کی سطح کی بات چیت مکمل ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: نئی حکومت کے ساتھ کام نہیں کروں گا، لوٹا نہیں ہوں، شوکت ترین
اس ضمن میں وزیر خزانہ کو تبصرے کے لیے کی گئی کالز پر جواب نہیں دیا گیا اور آئی ایم ایف حکام نے بھی براہِ راست بات کرنے سے گریز کیا۔
پاکستان کا اصرار ہے کہ ساتویں جائزے کے لیے درکار تمام اقدامات دسمبر 2021 کے اختتام تک پورے کردیے گئے تھے اور اب جائزہ نامکمل رکھنے کا کوئ جواز نہیں۔
البتہ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف ٹیم وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے مکمل ہونے تک آئندہ ہفتے سیاسی گرد بیٹھنے سے قبل جائزہ مکمل کرنے سے کترارہی ہے۔