فارما ایسوسی ایشن کی آئندہ ہفتے 600 فیکٹریاں بند کرنے کی دھمکی
ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال پر عائد ٹیکس کے معاملے پر وزارت خزانہ کو قائل کرنے میں ناکامی کے بعد پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) نے آئندہ ہفتے ملک بھر میں 600 فارما پروڈکشن یونٹس بند کر نے کا الٹی میٹم دے دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی پی ایم اے کے چیئرمین قاضی محمد منصور دلاور نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسوسی ایشن نے حکومت کی جانب سے ادویات کے خام مال پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کے فیصلے کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ خام مال کی خریداری پر ٹیکس واپس لے لیا جائے گا لیکن بعد میں ایسا کرنے سے انکار کردیا گیا۔
قاضی محمد منصور دلاور نے کہا کہ بوتلیں، ایلومینیم اور امپلس گلاس جیسی متعدد اشیا کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کے نرخ بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں اور حکومت نے ان پر سیلز ٹیکس بھی عائد کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست
انہوں نے کہا کہ مزید یہ کہ حکومت نے کانٹریکٹرز اور کنسلٹنٹس کی خدمات پر سیلز ٹیکس عائد کیا اور بدقسمتی سے مشینری اور فارماسیوٹیکل پلانٹس کی درآمد پر بھی بھاری ٹیکس ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب خام مال کی درآمد پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے جو حکومت کی جانب سے وعدے کے باوجود واپس نہیں لیا جا رہا۔
پی پی ایم اے کے سابق چیئرمین حامد رضا نے کہا کہ ایسوسی ایشن نے حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے 5 روز کا وقت دینے کا فیصلہ کیا ہے، بصورت دیگر انڈسٹری کے پاس ہڑتال پر جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
پی پی ایم اے کے ایک اور سابق چیئرمین اسد شجاع نے خبردار کیا کہ انڈسٹری بند ہونے کی صورت میں ادویات کی قلت ہو جائے گی اور ان کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔
مزید پڑھیں: حکومت نے زندگی بچانے والی 94 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی
انہوں نے کہا کہ حکومت کے فیصلے کی وجہ سے بالآخر عوام کو نقصان اٹھانا پڑے گا اور اس کے لیے ہمیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
پی پی ایم اے کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن عثمان شوکت نے کہا کہ ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال یا ایکٹِو فارماسیوٹیکل انگریڈینٹس (اے پی آئیز) پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے وزیر خزانہ شوکت ترین سے کئی ملاقاتیں کیں اور ہر بار حکومت کی جانب سے ہمیں یقین دہانی کرائی گئی کہ ہمارے مسئلے کو حل کیا جائے گا لیکن پھر ہم سے مذاکرات کرنے والی ٹیموں کو تبدیل کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم خام مال کی خریداری کے وقت سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں جسے واپس کیا جانا چاہیے لیکن اب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کہہ رہا ہے کہ ہمیں اسٹاک کی پوزیشن فراہم کریں اور وہ ان کی جانچ پڑتال کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے جان بچانے والی ادویات کی کمی کا نوٹس لے لیا
ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے ساتھ ایک نئی باڈی کو ہمارے اسٹاک کو چیک کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جس سے ٹیکس کی واپسی میں تاخیر ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں عثمان شوکت نے کہا کہ وزارت خزانہ نے انڈسٹری کو پیشکش کی تھی کہ وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے بلا سود قرض لے سکتی ہے لیکن یہ بھی قابل عمل نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس 600 فارماسیوٹیکل پروڈکشن یونٹس کو بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کیمسٹ اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن بھی اپنے میڈیکل اسٹورز بند کر دے گی۔
مزید پڑھیں: وزارت صحت کی ادویات کی قیمتوں میں 10 فیصد تک اضافے کی اجازت
انہوں نے کہا کہ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ادویات پر منافع کم کرنے کی وجہ سے پہلے ہی متعدد ادویات کی قلت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ توانائی کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس لیے حکومت کو فارما انڈسٹری کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ دوسری صورت میں ادویات یا تو مارکیٹ سے غائب ہو جائیں گے یا ان کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔