کووڈ کی معمولی شدت کے بعد بھی ذیابیطس سے متاثرہونیکا خطرہ ہوتا ہے، تحقیق
کووڈ 19 کی معمولی شدت اور بیماری کو شکست دینے کے بعد ذیابیطس ٹائپ ٹو کی تشخیص کے درمیان ممکنہ تعلق کو دریافت کیا گیا ہے۔
یہ بات جرمنی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ہنرچ ہینی یونیورسٹی کے جرمن ڈائیبیٹس سینٹر کی تحقیق میں جرمنی کے 1171 جنرل اور انٹرنل میڈیسین ڈاکٹروں کے طبی ریکارڈز کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیق کے دوران نظام تنفس کے دیگر امراض کے مریضوں کو کنٹرول گروپ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کنٹرول گروپ کے مقابلے میں ایسے بالغ افراد جو کووڈ کی معمولی شدت کو شکست دینے میں کامیاب رہے ان میں ذیابیطس ٹائپ ٹو میں مبتلا ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ جاتا ہے۔
محققین نے کہا کہ اگر ان نتائج کی تصدیق ہوجاتی ہے تو کووڈ سے معمولی افراد میں بیماری کے بعد ذیابیطس کی اسکریننگ کا مشورہ دینا ضروری ہوجائے گا۔
کووڈ 19 اور ذیابیطس کے درمیان تعلق پر پہلے ہی کافی تحقیقی کام ہورہا ہے جس میں اسے لانگ کووڈ سے منسلک قرار دیا گیا۔
سابقہ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ کوروان وائرس کے باعث پیدا ہونے والے ورم سے ممکنہ طور پر انسولین بنانے والے خلیات متاثر ہوتے ہیں جس سے وہ مرجاتے ہیں یا ان کے کام کرنے کا انداز بدل جاتا ہے۔
اس کے باعث ہائی بلڈ گلوکوز کا مسئلہ سامنے آتا ہے، جسم میں ورم کے باعث انسولین کے حوالے سے ٹشوز کم ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
اسی طرح دنیا بھر میں کووڈ کی روک تھام کے لیے عائد کی جانے والی پابندیوں کے باعث گھر میں زیادہ وقت بیٹھ گزارنے نے بھی اس حوالے سے ایک کردار ادا کیا۔
اس سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ ماضی میں ذیابیطس کی تاریخ نہ رکھنے والے افراد میں کووڈ کے بعد ہائی بلڈ گلوکوز اور انسولین کی مزاحمت کی تشخیص کیوں ہوتی ہے۔
مگر اب تک یہ واضح نہیں کہ یہ میٹابولک تبدیلیاں عارضی ہوتی ہیں یا دائمی، جبکہ کووڈ سے معمولی بیمار افراد میں اس خطرے پر اب تک کام نہیں ہوا تھا۔
اسی کو دیکھتے ہوئے جرمن محققین نے نے مارچ 2020 سے جنوری 2021 کے دوران طبی ریکارڈز کا جائزہ لیا۔
اس میں 35 ہزار سے زیادہ ایسے مریضوں کا ڈیٹا بھی تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی اور ان میں بیماری کو شکستر دینے کے بعد ذیابیطس کی تشخیص کے کیسز کا موازنہ کووڈ سے محفوظ رہنے والے مگر کسی اور نظام تنفس کی بیماری کا سامنا کرنے والے افراد سے کیا گیا۔
جنس، عمر اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھنے کے بعد ایسے ماڈلز تیار کیے گئے جو ذیابیطس کے کیسز کی شرح کا تخمینہ لگاسکیں۔
پھر کووڈ کے مریضوں کا اوسطاً 119 دن اور دوسرے گروپ کے افراد کا 161 دن تک جائزہ لیا گیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے نئے کیسز ان مریضوں میں زیادہ عام تھے جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ گروپ میں دوسرے گروپ کے مقابلے میں ذیابیطس کا خطرہ 28 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد میں ذیابیطس کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے جس کی وجہ انسولین کی مزاحمت اور خلیات کے افعال متاثر ہونا ہے، یا مریضوں میں اس لیے بھی ذیابیطس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ موٹاپے یا پری ڈائیبیٹس یا کووڈ سے جسم پر آنے والے تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے افراد میں ہائی بلڈ شوگر کا خطرہ برقرار رہ سکتا ہے جس کا انحصار خطرہ بڑھانے والے عناصر جیسے خلیات کو ہونے والے نقصان، ورم کے خلاف شدید ردعمل اور جسمانی وزن میں اضافے پر ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ ہم نے کووڈ کے مریضوں کا صرف 3 ماہ تک جائزہ لیا تھا تو اس حوالے سے مزید مانیٹرنگ کی ضرورت ہے تاکہ سمجھا جاسکے کہ کووڈ کی معمولی شدت کے بعد ذیابیطس ٹائپ ٹو کا شکار ہونا عارضی اثر ہے اور مکمل صحتیابی کے بعد ریورس ہوجاتی ہے یا یہ دائمی مسئلہ بن جاتا ہے۔
محققین نے کہا کہ اگرچہ کووڈ کی معمولی شدت متاثر بیشتر افراد کے لیے ممکنہ طور پر ذیابیطس ٹائپ ٹو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا مگر اس بیماری کو شکست دینے والوں کو انتباہی علامات جیسے تھکاوٹ، زیادہ پیشاب آنے اور پیاس زیادہ لگنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے Diabetologia میں شائع ہوئے۔