کووڈ سے متاثر ہر 4 میں سے ایک بچے میں طویل المعیاد علامات کا خطرہ ہوتا ہے، تحقیق
کووڈ 19 کی علامات والی بیماری کا سامنا کرنے والے ایک چوتھائی بچوں اور نوجوانوں کو اس بیماری کی طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ہوسٹن میڈیکل ریسرچ انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ان بچوں اور نوجوانوں کو لانگ کووڈ کی ان علامات کا سامنا ہوا جو بالغ افراد میں نظر آتی ہیں جیسے تھکاوٹ، نیند کے مسائل، سانس کے مسائل، دل کے مسائل اور معدے کے امراض وغیرہ۔
محققین نے بتایا کہ بچوں اور نوجوانوں کو بھی کووڈ 19 کے باعث جسمانی اور ذہنی صحت کے طویل المعیاد مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس عمر کے گروپ میں لانگ کووڈ کی بنیادی نشانیوں اور علامات کی شناخت سے تشخیص میں مدد ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح بہتر ٹریٹمنٹس کو تیار کرنے میں مدد مل سکے گی جبکہ خطرے کا باعث بننے والے عناصر کی روک تھام ہوسکے گی۔
تحقیق کے لیے محققین نے ایشیا، یورپ، آسٹریلیا اور جنوبی امریکا میں ہونے والی 21 تحقیقی رپورٹس کا ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی تاکہ تخمینہ لگایا جاسکے کہ 18 سال سے کم عمر کے مریضوں میں لانگ کووڈ کی شرح کای ہے اور سب سے عام علامات کی شناخت ہوسکے۔
یہ ڈیٹا 80 ہزار سے زیادہ کووڈ کے مریض بچوں کا تھا جن میں سے 25 فیصد میں علامات کا تسلسل کم از کم 4 سے 12 ہفتوں تک برقرار رہا۔
لانگ کووڈ کی علامات ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے 29 فیصد سے زیادہ مریضوں میں دریافت ہوئیں۔
ایسے بچے جن میں کووڈ کی شدت زیادہ تھی، موٹاپے، الرجی سے منسلک امراض یا دیگر بیماریاں تھیں، ان میں لانگ کووڈ کا امکان زیادہ دریافت ہوا۔
لانگ کووڈ سے متاثر بچوں میں انزائٹی، ڈپریشن کے مسائل سب سے زیادہ عام تھے جس کے بعد تھکاوٹ اور نیند کے سمائل تھے۔
دیگر عام علامات میں سردرد، سوچنے کی صلاحیت میں تبدیلی، سرچکرانے اور توازن کے مسائل نمایاں تھے۔
اسی طرح سانس لینے میں مشکلات، ناک بند ہونا، ورزش، سینے میں تکلیف اور کھچاؤ، کھانسی، دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونا، بہت زیادہ پسینہ آنا، خارش، بالوں کا گرنا، کھانے کی اشتہا ختم ہوجانا، پیٹ درد، قبض، ہیضہ، قے اور متلی جیسی علامات بھی کافی عام تھیں۔
تحقیق کے دوران جب کووڈ سے محفوظ رہنے والے بچوں کا موازنہ کیا گیا تو دریافت ہوا کہ کورونا وائرس سے متاثر بچوں میں سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی کا تسلسل 10 گنا زیادہ وہتا ہے۔
محققین نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر نتائج سے بچوں میں لانگ کووڈ کی شناخت اور علاج میں مدد مل سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ لانگ کووڈ ایک بڑا طبی مسئلہ بن سکتا ہے اور اس کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے کوئی گائیڈلائنز موجود نہیں، ضروری ہے کہ بچوں میں لانگ کووڈ کے اثرات کی مانیٹرنگ جاری رکھی جائے۔