• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

اب محبتوں سے ہمار دَم گھٹتا ہے...!

شائع April 7, 2022

کہتے ہیں کہ گئے وقتوں میں اہم کاغذات پر انگوٹھا لگانے کا سلسلہ ہوتا تھا، جو دوبارہ آج جدید مشینوں پر ثبت کرکے ہماری 'پہچان' کا ایک نیا ذریعہ بن گیا ہے۔

ایسے ہی پہلے کسی کو انگوٹھا دکھانا چڑانے اور اس سے ناپسندیدگی کا ایک اظہار تھا، لیکن سماجی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا) نے اسے 'بہت خوب' اور حوصلہ افزائی کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے۔ اب ہم سبھی لوگ عام زندگی میں بھی کسی کو خراج پیش کرتے ہیں، تو ہاتھ ہلا ہلا کر خوب انگوٹھا دکھاتے ہیں اور دیکھنے والا بھی بُرا نہیں مانتا، بلکہ نہال ہوا جاتا ہے، آداب بجا لاتا ہے اور شکریہ ادا کرتا ہے۔

ایک یہی نہیں زندگی میں اور بھی بہت سی چیزیں تبدیل ہوئیں، یہاں تک کے اب بہت سے انسانی جذبات تک کی اٹھان اور نوعیت بھی کچھ بدلتی جا رہی ہے، جیسے اب یہی دیکھ لیجیے کہ پہلے ہم کسی کو اپنی خیریت بتاکر اس کی خیریت نیک مطلوب چاہتے تھے، اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ہم صحتیابی میں تو کبھی سلام علیک نہیں کرتے، لیکن طبیعت خراب ہو تو جھٹ فون کرکے یہ ضرورت بتاتے ہیں کہ ہم بیمار ہوگئے ہیں۔

مزید پڑھیے: نایاب ہوتے ہوئے بزرگ... 'زندگی' جن کا 'طواف' کرتی ہے!

ظاہر ہے ہمارے باہمی رابطے وہ رہے نہیں کہ دوسروں کو اس علالت کی خبر ہوتی اور وہ ہماری عیادت کرتے، حال چال پوچھتے، جبکہ دوسری طرف ہم بھی اب اپنے سُکھ کے بجائے دکھ اور تکلیف کا ڈھنڈورا پیٹنا چاہتے ہیں، کیونکہ ہم میں سے بہت ساروں کو یہ خبط ہوچکا ہے کہ انہیں نظر لگ جاتی ہے، اور فون پر اپنی تکلیف، مسائل اور بیماری کا یہ دکھاوا کرنا دراصل اس 'نظر' کی 'اتار' ہی کا کوئی ٹوٹکا وغیرہ ہے۔

یہی نہیں بہت سے احباب ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جوں ہی ان کے گھر کے دروازے پر دستک ہو، تو وہ کچھ بھی کر رہے ہوں، فوراً لیٹے پڑے جاتے ہیں، تاکہ کوئی ملنے جلنے والا آیا ہو اور جب کوئی اس سے پوچھے کہ فلانے کے ہاں گئے تھے، تو وہ موصوف کیا کر رہے تھے یا کیا کر رہی تھیں؟ تو سنانے کے لیے یہ اچھا جواب رہے گا کہ بھئی وہ تو تھکے ماندے بستر پر پڑے تھے۔ اچھا ہے کہ گھر سے باہر صحت مندی یا خوشحالی کی خبر نہیں جائے گی۔ دوسری طرف یہ سوچ بھی تو آگئی ہے کہ ہم اپنے دکھ سے زیادہ کسی دوسرے کے سکھ پر پریشان ہوتے ہیں، سو بس کُل یہی خلاصہ ہے آج کل کے سارے میل جول کا۔

اب ذرا محبت کو دیکھیے، اس بنیادی انسانی جذبے کی کیا درگت بنی ہے۔ کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ سرمایہ داروں نے تاقیامت اس خوبصورت جذبے کو 'اسپانسر' کر ڈالا ہے۔ نرا ایک بے ساختہ اور بنیادی سا جذبہ ہے، جس کے گرد مادی خواہشات اور نام نہاد خوابوں کی ایک اونچی فصیل اٹھا دی گئی ہے۔ اب یہ کہیں فقط جذبات کا ایک اُبال بھی ہوتا ہے، تو کہیں وقت گزاری کی ایک بہت بُری لت بھی، لیکن عَلم بلند ہے محبت کا، اور پھر اتنی جلدی کوئی سستی جوتی بھی نہیں ٹوٹتی، جتنی جلدی یہ مُوئی محبت ادھ موئی ہوکر دریا برد بھی ہو جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم سب 'کمرشل ازم' کے منچ پر اپنی تعیشات اور مال ومتاع کے پردے میں نام نہاد خلوص اور جذباتیت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، نہ صرف یہ کہ ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، بلکہ دوسروں کی ناقدری اور بے وفائی کے راگ بھی خوب الاپتے ہیں۔

مزید پڑھیے: مریض کی عیادت کرتے ہوئے ان 9 باتوں کا خیال رکھیے

جس طرف نگاہ کیجیے 'وفاداروں' کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے ہیں، جنہیں وفا نہیں مل سکی اور صرف بے وفاؤں' سے پالا پڑا ہے۔ ارے کوئی پوچھتا نہیں کہ سب ایک ہی دھرتی کے تو لوگ ہو، اور اسی سیارے پر ہی محبت کرتے ہو، تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم سب وفادار ہوں اور دوسرے سب محض وفا کے نام پر داغ؟

کہیں تو گڑبڑ ہے۔

بالکل، کہیں پر نہیں، دراصل یہ ساری گڑبڑ ہی گڑبڑ ہے۔ شاید ہمارے رویوں میں اب کسی اور کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے، شاید غیر محسوس طریقے سے ہم صرف اور صرف اپنے لیے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ خود نمائی اور خود پسندی کی اس انتہا پر تو ماہرین عمرانیات اور نفسیات ہی بہتر روشنی ڈال سکیں گے، لیکن امر واقع یہی ہے کہ اب ہماری چاہ اور منزل عہدے، مرتبے، شہرت، شان و شوکت اور استعمال کی چیزوں سے ہی منسلک ہوکر رہ گئی ہے۔ دنیا کی آسائش کو ہم نے اس خلوص اور اس روحانی جذبے میں بُری طرح گڈمڈ کرکے رکھ دیا ہے۔ ہمارے تعلقات مشینی ہونا اور اپنوں سے خوشیاں نہ بانٹنا اسی کا نتیجہ ہے، جو آج ہم سب عام زندگی کے ساتھ ساتھ سماجی ذرائع ابلاغ پر بھی خوب دیکھتے ہی رہتے ہیں۔

کیونکہ کسی کے لیے اچھے خیال پیدا ہونا ایک بے ساختہ انسانی جذبہ ہے۔ جب ہم کسی کو اپنا کہتے ہیں، تو پھر لامحالہ اس کی خوشی میں خوش اور اس کے دکھ پر دکھی ہوتے ہیں اور پھر اس پر اپنا کچھ نہ کچھ 'حق' بھی ضرور جتاتے ہیں، جو آج کی نام نہاد آزادی میں اکثر 'مداخلت' اور 'رکاوٹ' کہہ کر دھتکار دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ خلوص دل سے دیے گئے مشورے اور نصیحتیں بھی لمحے بھر میں منہ پر دے ماری جاتی ہیں کہ آپ اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں کہ یہ آخر ہوا کیا ہے۔

یعنی ماضی میں جس طور طریقے کو کسی کا خیال رکھنا اور کسی کی فکر کرنا سمجھا جاتا تھا اور اس کی خوب قدر کی جاتی تھی، اور اگر خیال نہ کیا جائے، تو شکایت ہوتی تھی، آج الٹا اسے ہی غلط اور بے جا روک ٹوک سمجھا جانے لگا ہے۔ گویا جو کام گئے وقتوں میں اپنوں سے تعلق کو ایک قسم کی سانس فراہم کرتا تھا، کسی سے تعلق کی دلیل بنتا تھا، آج کے بدلتے ہوئے زمانے میں اسی جذبے سے ہمارا دَم گھٹتا ہے۔

بھلا بتائیے کہ یہ کیسا تغیر رونما ہوا ہے کہ آج اپنائیت میں بھی 'اسپیس' کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ ہمیں تو یہ اسپیس یا 'خلا' کے نام پر نمو پانے والا فاصلہ دراصل انسان کی میکانیت ہی کی ایک دلیل محسوس ہوتی ہے، جیسے جیتا جاگتا انسان نہ ہوا کوئی آٹو میٹک مشین ہوگیا، یعنی انسان کو بھی کسی ٹی وی چینل کی طرح 'ریٹنگ' کسی ویب سائٹ کی طرح ویوز، لائکس اور کِلکس درکار ہیں۔ تبھی آج کسی کے لیے محدود ہونا ایک رکاوٹ گنی جانے لگی ہے، جب آپ اس حد تک خود غرض ہوجائیں گے، تو صاحب، کہاں کی وفا اور کون سی وفاداری؟

لوگوں میں تلخی و ترشی پہلے بھی ہوتی تھی، دو برتن ہوں تو آواز پیدا ہو ہی جاتی ہے، لیکن لوگ جلد از جلد اسے کہہ سن کر اپنا دل صاف کر لیتے تھے۔ آج ہمیں کوئی اپنا جان کر گلہ شکوہ کرے اور پہلے کی طرح دل صاف کرنا چاہے، تو ہمیں یہ بحث بہت زیادہ ناگوار گزرتی ہے، ہم اسے کٹ حجتی اور بار بار سوال کرنے والا کہہ کر اس سے اور الجھتے ہیں، جبکہ وہ دل کے نہاں خانوں میں اس تعلق کو پہلے کی طرح شفاف کرنے کی خاطر یہ ساری بات کر رہا ہوتا ہے، لیکن 'رات گئی بات گئی' کرکے آگے بڑھنے کے خواہاں شاید یہ جانتے ہی نہیں کہ جب پیر کے موزے کے اندر کوئی کنکر موجود ہو تو ایسے میں ایک قدم بھی بڑھانا کس قدر دشوار ہوتا ہے، تاوقتے کہ جوتا اتار کر پہلے اس کنکر کو باہر نہ نکال دیا جائے۔

آپ خود سوچیے کہ اگر آپ کو میری کوئی بات کوئی عادت تکلیف دیتی ہے، تو کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ ایک بار یہ اختلاف ہونے پر ہم اس پر اچھی طرح بات کرکے اپنی بات سمجھا اور دوسرے کی بات سمجھ لیں؟ تاکہ آئندہ کے لیے کم از کم یہ ٹکراؤ اور اختلاف باعث تلخی نہ بنے؟

مزید پڑھیے: اب ہماری 'سقّے والی گلی' کو کوئی نہیں جانتا!

ہمیں تو اچھی ساجھے داری میں یہ طریقہ ناگزیر دکھائی دیتا ہے، تاہم جہاں فقط سطحی سا ناتا اور واجبی سا یعنی کام چلاؤ تعلق ہو، تو وہاں پھر آج کل کی طرح کچھ کہہ سننے کا وقت نہیں ہوتا اور وہ مٹی ڈالو کہہ کر بات ختم کرتے ہیں۔ یہ تو ہمیں بالکل ایسا ہی لگتا ہے کہ آپ نے کنویں میں سے مرا ہوا کتا تو باہر نکالا نہیں، ایسے میں کنویں کا پانی صاف کیوں کر ہوگا؟

المختصر، اب مشینوں کا دور ہے، اور مشینوں کے ساتھ مشین بن جانے والوں کو صرف اپنے کام سے مطلب ہے، کسی کو دوسرے کے بارے میں اتنی باریک بینی سے سوچنے کا وقت ہی کہاں ہے۔ اب ہمارا کوئی کام کسی جذباتی غرض سے ہی کیوں نہ ہو، بس جب صرف غرض ہی کی غرض ہو، تو پھر رشتے ناتوں پر لگنے والے زنگ کو صاف کرنے کی طرف دھیان کیسے جائے گا.؟

کون چاہے کہ تعلق کے شفاف شیشے کو جھاڑ پونچھ لیا جائے، اس پر پڑ جانے والی گرد صاف کرکے اسے پہلے کی طرح اجلا اور بے داغ کرلیا جائے اور اپنے دل کے آئینے میں کوئی بال بھی نہ پڑنے دیا جائے۔ نہیں اب صرف اور صرف ہم 'ضروری' ہیں، اور یہ بڑی ساری دنیا ہمیں دستیاب ہے، تو بھلا کسی ایک جنے سے ہمیں بھلا کیا فرق پڑتا ہے؟ البتہ اگر کسی ایک ہی کو ساری دنیا جتنی وقعت حاصل ہو تو اس کے لیے ضرور بہت فرق پڑ جاتا ہے!

رضوان طاہر مبین

بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024