’اپوزیشن کے اجتماعات دلیل ہیں کہ ان کے پاس عدم اعتماد کیلئے ووٹ مکمل نہیں‘
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اگر اپوزیشن کے پاس تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹرز کے نمبر مکمل ہیں تو انہیں جلسوں اور اجتماعات کی ضرورت کیا ضرورت ہے، یہ اجتماعات اس بات کی دلیل ہیں کہ ان کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں۔
اسلام آباد میں پاکستان ٹیلی ویژن پر حملے کے مقدمے میں عدالت میں پیش ہونے سے قبل میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم پر جھوٹا مقدمہ کیا گیا تھا اس کیس میں شاہدین کے بیانات بھی قلمبند ہوگئے ہیں، آج فیصلے کی تاریخ ہے ہمیں امید ہے کہ جج صاحب مناسب فیصلہ دیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے جلسے کے جواب میں پی ڈی ایم کے جلسے کے اعلان سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ارادہ تصادم تھا نہ ہے، آپ نے دیکھا کہ پی ٹی آئی نے ایک لانگ مارچ کیا، لانگ مارچ پنجاب کے ایک ایک شہر سے گزرتے ہوئے اسلام آباد پہنچا۔
مزید پڑھیں: میں یہاں الیکشن جیتنے نہیں، لوگوں کو جگانے آیا ہوں، شاہ محمود قریشی
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران راستے میں انہوں نے جگہ جگہ رک کر جلسے کیے، اسی طرح عمران خان نے 27 تاریخ کو سیاسی لگاؤ رکھنے والوں کو دعوت دی ہے اور اس سے قبل کیے گئے جلسے دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگوں میں کافی جوش ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سچ بات یہ کہ ہم نے اب تک جو جلسے کیے ہیں اور کمال کے جلسے تھے، زبردست جوش و ولولہ تھا لیکن یہ پُر امن تھے، انشااللہ 27 تاریخ کو بھی ہمارا اجتماع پُرامن ہے۔
تحریک عدم اعتماد سے متعلق ایک سوال کے جواب پر شاہ محمود قریشی نے عمران کے نظریے کو درست قرار دیتے ہوئے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
عمران خان نے کہاتھا کہ ان کے خلاف جو تحریک عدم اعتماد آرہی وہ اس لیے آرہی ہے کہ انہوں نے یورپ کو للکارا ہے۔
27 مارچ کے جلسے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم دھرنا نہیں دینے جارہے ہیں، ہم جلسہ کر رہے ہیں، لوگ آئیں گے اپنے چیئرمین کا نظریہ سنیں گے اور چلے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری نے بھٹو کی نظریاتی سیاست کو دفن کردیا، شاہ محمود قریشی
عدم اعتماد کی ووٹ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ تحریک بھی اپوزیشن کی ہے، ووٹ بھی انہوں نے ہی جمع کرنے ہیں، اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ووٹوں کے نمبر پورے ہیں تو انہیں عوامی اجتماعات کی کیا ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دلیل ہے کہ ان کے نمبرز پورے نہیں ہیں، ان کی صفوں میں انتشار ہے، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ ان کا مستقبل کی حکمت عملی پر کوئی اتفاق نہیں ہے، ان کا اتفاق صرف ایک چیز پر ہے اور وہ یہ ہے کہ ’عمران خان کو ہٹانا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل کے لیے ان کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے، کون وزیر اعظم بنے گا، حکومت کی مدت کتنی ہوگی، کیا ہوگا کیا نہیں ہوگا اس پر کوئی اتفاق نہیں ہے، نہ ان کا نظریہ ایک ہے، نہ ان کی منزل ایک ہے، نہ ان کا جھنڈا ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بتائیے کیا مسلم لیگ یہ سارا انتظام اس لیے کر رہے ہیں، کہ بلاول وزیر اعظم بن جائیں، کیا بلاول یہ سب اس لیے کر رہے ہیں کہ اس کا سہرا شہباز شریف کے سر چلا جائے، کیا پیپلز پارٹی اپنے پارٹی کی سیاست کا محور اب جے یو آئی کے نظریے کو بنانے لگی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لوٹی دولت واپس لانے کیلئے عمران خان کا کوئی ساتھ نہیں دے رہا، شاہ محمود قریشی
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی عوام یہ جان چکی ہے یہ ایک غیر فطری اتحاد ہے ان کے نتائج دیر پا نہیں ہوں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پارلیمان پر حملہ کرنا کبھی بھی مناسب نہیں ہے، آپ کو یاد ہوگا دھرنے کے دوران میں تحریک انصاف کا وفد لے کر اسمبلی گیا تھا، اور میں نے کہا تھا کہ پارلیمان ہمارا سیاسی کعبہ ہے اس پر حملہ کرنا ہمارے منشور میں شامل نہیں ہے، یہ تحریک انصاف کو منفی رنگ میں دیکھانے کے خواہش مند افراد کی سازش ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ آئینی، قانونی اور جمہوری طریقے سے کریں گے، یہ اپوزیشن کا حق ہے۔
’بھارتی میزائل کے معاملے پر خط لکھ کر بین الاقوامی برادری کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے‘
اسلام آباد میں او آئی سی اجلاس سے متعلق ایک الگ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اب تک 48 وزرا کی شمولیت کی تصدیق آچکی ہیں، اس میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے، پاکستان او آئی سی کے بنیادی اراکین میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں اقوام متحدہ کے بعد او آئی دنیا کا دوسرا بڑا فورم ہے، یہ اجلاس بہت اہم موضوع پر ہورہا ہے، اس وقت یہ اجلاس اس بھی ضروری ہے کہ دنیا میں اسلام فوبیا اور نفرت انگیزی کے اثرات ہیں اس سے آپ سب پوری طرح واقف ہیں اور خاص طور پر بھارت میں مسلم برداری اپنے آپ کو بہت غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اس اجلاس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ کورونا وائرس کے اثرات اب بھی ختم نہیں ہوئے ہیں اور ہم جانتے ہیں اس سےکس طرح غذائی قلت پیدا ہوئی ہے اور اس سے پاکستان کے شہری بھی اچھی طرح واقف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس اجلاس کو اقوام کے درمیان اتحاد کے لیے استعمال کرنا چاہے گا کیونکہ پاکستان کے تمام مسلم ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں تو ہم ان تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیں گے کہ اگر دوریاں ہیں تو انہیں ختم کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: او آئی سی اجلاس میں 46 ممالک شرکت کی تصدیق کرچکے، شاہ محمود قریشی
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری کوشش ہوگی مشرقِ وسطیٰ اور مقبوضہ کشمیر میں جو صورت حال ہے اس میں بہتری لائی جاسکے تاکہ امن کی آواز کو ہم آگے بڑھا سکیں تاکہ ہم معاشی بحران سے باہر آسکیں اور مسلم امّہ میں ترقی کو فروخت کرسکیں۔
وزیر خارجہ نے او آئی سی اجلاس کے بارے میں بات رکھتے ہوئےکہا کہ ہم نے اس اجلاس کے لیے ایک تھیم بنائی ہے وہ تھیم ’پارٹنرشپ فار یونیٹی اینڈ ڈویلپمنٹ‘ ہے۔
اجلاس سے قبل مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا ہماری کوشش ہے کہ اس اجلاس میں ایک سو سے زائد قرار دادوں پر اتفاق ہوسکے، اور ہماری خواہش ہے کہ اجلاس کے دوران کشمیر کی ازسرِ نوع صورتحال پیش کی جائے اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کشمیر پر مرتب کی گئی رپورٹ پیش کریں۔
ہماری خواہش ہوگی ہے کہ کشمیر کے اصل نمائندےاجلاس میں شرکت کریں اور وہاں کے موجودہ حالات سے مسلم امّہ کو آگاہ کریں، اور ہماری کوشش ہوگی کہ اس اجلاس میں اسلامو فوبیا اور حجاب کے مسئلے پر ہم او آئی سی کے پلیٹ فارم سےایک متفقہ رد عمل مرتب کرنے میں کامیاب ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:شاہ محمود قریشی چاہیں گے کہ وہ وزیراعظم بنیں، پی ٹی آئی رکن اسمبلی
ہماری خواہش ہے کہ یہ اس اجلاس کے فیصلوں پر بھی نظر ثانی کرے جو افغانستان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے لیے گئے تھے، اور ان کی پیش رفت کے بارے میں آگاہی حاصل کی جائے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کل میری اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے بات ہوئی جس میں بھارت کی جانب سے پاکستان میں داغے گئے میزائل پر تبادلہ خیال کیا گیا، بھارت چاہے اسے حادثاتی کہے یا کچھ اور لیکن یہ ایک بہت سنگین مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے حیرت ہے کہ بین الاقوامی برادری نے اس معاملے کی شدت کو محسوس کیوں نہیں کیا، اس معاملے پر میں نےان سے بات کی اور میں سلامتی کونسل اور سکریٹری جنرل یو این کو اس پرایک خط بھی لکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے بین الاقوامی برادری کو خط کے ذریعے ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے کہ یہ ایک واقع رونما ہوا ہے، اس کےنتائج کیا ہوسکتے ہیں، اور میں نے اس خط کے ذریعے کچھ سوالات بھی اٹھائے ہیں۔