فضائی میزبان کی آپ بیتی: ماہ نور بلوچ کی عمر اور مریم نواز کا اخلاق
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
دہلی کی پرواز کی تیاری ہوچکی تھی۔ بس مسافروں کا آنا باقی تھا۔ بورڈنگ شروع ہوئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ جنون گروپ کے سلمان احمد ہاتھ میں گٹار کے بجائے بورڈنگ کارڈ لیے چلے آ رہے ہیں۔ ہمیشہ سے ان کے ہاتھ میں گٹار دیکھا تھا تو اب اس کے بغیر عجیب سے لگ رہے تھے بالکل ایسے جیسے میں عینک کے بغیر لگتا ہوں۔
خیر سلام کیا، ہاتھ ملایا اور ان کی نشست پر بٹھایا۔ میں بڑا پُرجوش تھا تو ایک ساتھی نے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں؟ پہلے میں سمجھا وہ مذاق کر رہا ہے لیکن وہ واقعی سنجیدہ تھا۔ وہ زمانہ نوکیا 3310 کا تھا ورنہ اسی وقت یوٹیوب پر جنون کا کوئی کنسرٹ اسے دکھا دیتا۔ دراصل وہ ساتھی زیادہ تر علاقائی گیتوں کا شوق رکھتے تھے۔
خیر آہستہ آہستہ سب کو معلوم ہونے لگا کہ سلمان احمد فلاں سیٹ پر بیٹھے ہیں تو پرستار آنے جانے لگے۔ ایک اور ساتھی نے اشارے سے پوچھا کہ ادھر رش کیوں ہو رہا ہے تو میں نے ہاتھ سے گٹار بجانے کا اشارہ کیا اور کاندھے اچکائے۔ پیچھے مڑا تو سلمان احمد مجھے ہی دیکھ رہے تھے۔ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔ میں بھی شرمندہ ہونے کی کوشش میں کامیاب ہوگیا۔ وقت کم تھا لہٰذا تفصیلاً ملاقات نہ ہوسکی۔
لاہور سے کراچی کی پرواز تھی۔ عملہ کم تھا اور مسافر سخت، میرا مطلب ہے مقابلہ سخت۔ اندرونِ ملک پروازوں پر اگر آپ غور کریں تو عملہ ایسے مشینی انداز میں کام کرتا ہے کہ روبوٹ بھی شرما جائیں بلکہ ان کے سرکٹ ہی سڑ جائیں۔ اس دن 14 کے بجائے ہم 8 لوگ تھے اور جہاز تقریباً مکمل پیک تھا۔ میں جہاز کے آخری حصے میں کام کر رہا تھا جس کو عرفِ عام میں ہم ایفٹ (AFT) کہا کرتے ہیں۔ عملے کے اراکین کم ہونے کی صورت میں اس جگہ 2 لوگ کام کرتے ہیں اور مسافر صرف 120 ہوتے ہیں۔ عالم یہ ہوتا ہے کہ
ایفٹ والوں کو خبر کیا
زندگی کیا چیز ہے
بجلی کی سی تیزی سے کام کرنے کا آپ نے صرف محاورہ ہی سنا ہوگا، اس کا عملی مظاہرہ ہر اندرونِ ملک پرواز پر کرنا دنیا کے کسی بھی فضائی میزبان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ امریکی نیوی سیل کا سخت جان نابغہ بھی دہشتگرد کو اتنی تیزی سے کیا قابو کرتا ہوگا جتنی تیزی سے ایک فضائی میزبان 60 مسافروں کو کھانے کی ٹرے دے کر واپس لینے کے دوران 3 بار کولڈ ڈرنک، 2 بار پانی، اور 2 بار چائے دے کر خود بھی کچھ نہ کچھ کھا پی لیتا ہے بلکہ اپنی ہنگامی نشست پر بیٹھنے سے پہلی چائے کی 2 سڑکیاں بھی لگا لیتا ہے اور وہ بھی بس 35 سے 40 منٹ میں۔
خیر یہ سب باتیں تو ایک طرف۔ بتانا یہ چاہ رہا تھا کہ اسی پرواز پر ان سب پھرتیوں کے دوران درجہ اوّل (Business Class) میں چمٹا (جسے انگریزی میں Tong کہتے ہیں اور یہ سروس میں کھانے کی کوئی چیز پیش کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے کہ کباب وغیرہ) لینے گیا تو واپسی پر کیا دیکھتا ہوں کہ اداکارہ ماہ نور بلوچ پوری آب و تاب کے ساتھ ایک نشست پر براجمان ہیں اور ایک انگریزی کتاب پڑھ رہی ہیں۔
بس اسی لمحے تیز رفتار زندگی کے گیت کا ریکارڈ، گراموفون کی طاقت ختم ہونے کے باعث غاؤں غاؤں کرتا ہوا رکنے لگا اور آخر سوئی ایک جگہ ٹک گئی۔ سلو موشن میں چمٹے نے شرارتی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور اس سے پہلے کہ میں جذبات کی نالی میں بہتا ہوا غیر ارادی طور پر اسے بجانا شروع کردیتا، میں نے چمٹے کو قابو کرتے ہوئے فوراً ایفٹ کی طرف رخ کیا۔
سروس کے بعد میں نے کچھ کھانے پینے کے بجائے ماہ نور صاحبہ سے ملنا زیادہ مناسب سمجھا۔ میں نے عمر چور کا لفظ استعمال نہ کرتے ہوئے ان کی اور پھر اپنی تعریف کی جس کو انہوں نے بہت پسند کیا۔ دل تو کر رہا تھا کہ نوکری اور زندگی داؤ پر لگا کر ان کی عمر کے بارے میں کوئی بات کر ہی لوں لیکن پھر سوچا کہ وہ یقیناً بُرا منائیں گی اور جہاز پر پیرا شوٹ بھی نہیں ہوتا۔
اسی پرواز پر کراچی سے لاہور واپس آتے ہوئے اداکار عدنان صدیقی سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان کو پی ٹی وی کے ڈرامے زیب النسا سے دیکھنا شروع کیا تھا۔ ماہ نور صاحبہ کی طرح ان سے بھی عمر چور کی اصطلاح چھپا کر تعریف کی لیکن وہ کچھ کچھ سمجھنے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی ردِعمل دکھاتے میں نے سیخ کباب کی ’ایک اور‘ پلیٹ ان کے آگے دھر دی جو وہ شوق سے کھا رہے تھے اور زیادہ سیخ پا نہیں ہوئے۔
مشہور گلوکار شہزاد رائے سے ٹورنٹو کی پرواز میں ملاقات ہوئی۔ وہ درجہ سوم (Economy Class) میں سفر کررہے تھے اور لمبے سفر سے کافی پریشان تھے۔ ہم نے کوشش کی کہ بات چیت سے شاید انہیں کچھ افاقہ ہوجائے لیکن وہ زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ یا شاید اس دن کوئی اور پریشانی ہو خدا جانے۔ زیادہ وقت بس ایک انگریزی ناول پڑھتے رہے۔
غلام علی صاحب اور عابدہ پروین صاحبہ سے بھی دہلی کی پرواز میں ملاقات ہوئی۔ دونوں ہی شخصیات سب سے بہت محبت اور خلوص سے ملتی ہیں۔ ہمارے پرسر یعنی سینئر بخاری صاحب نے عابدہ صاحبہ کا بیگ بالائی خانے میں رکھنا چاہا تو ان کا نام پڑھتے ہی انکار کردیا۔ کہنے لگیں آپ سید بادشاہ ہیں، مجھے گناہگار نہ کریں۔ یہاں تک کہ مجھے بھی نہیں رکھنے دیا اور خود اپنی سامنے والی نشست کے نیچے رکھ کر بیٹھ گئیں۔ چھوٹی سی پرواز تھی، دونوں نے کچھ نہیں کھایا۔ غالباً سبز چائے کی 2 پیالیاں پی تھیں اور بس۔
لاہور، کراچی اور اسلام آباد کی پروازوں پر بہت سے فنکار اکثر ملتے ہیں۔ درجہ اوّل میں سروس طعام کے بعد ’مال غنیمت‘ سے اپنا چکن تکہ وصول پاکر اپنی کوتوالی (گے-لی) میں انصاف کے تقاضے پورے کر رہا تھا کہ آواز آئی، ’اچھا جی! خود چکن تکہ اور ہمیں سوکھا کیک‘۔
مُڑ کر جو دیکھا تو مشہور کامیڈین شفاعت علی صاحب کھڑے شرارتی نظروں سے مجھے دیکھ رہے ہیں۔ میں نے فوراً دعوت دی لیکن انہوں نے شکریے کے ساتھ قبول نہیں کی۔ اپنے دفاع میں ان کو میں نے بتایا کہ درجہ دوم (Economy plus) میں جو میسر تھا وہی عملے نے پیش کیا ہوگا۔ لیکن آپ کے لیے یہ سب بھی حاضر ہے۔ 10 سے 15 منٹ ان سے بات ہوئی اور معلوم ہوا کہ ان کے بھی کافی رشتے دار پشاور سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے اپنے ننھیال کا بتایا تو پتہ چلا کہ میرے کچھ کزن بھی ان کے جاننے والوں میں شامل ہیں۔ بہت ہی زمیں بوس انسان ہیں یعنی کہ ڈاون ٹو ارتھ۔
جدہ کی پرواز پر محترمہ مریم نواز اور جنید صفدر سے ملاقات رہی۔ مریم نواز بہت اخلاق سے پیش آئیں اور پرواز پر زیادہ تر انہوں نے آرام کیا جبکہ جنید صفدر کے ساتھ کافی گپ شپ لگی۔ بالکل فرینک اور دوستانہ ماحول میں بات چیت کرتے ہیں۔ جہاز سے اترنے سے پہلے انہوں نے سب عملے کا اچھی مہمان نوازی پر باقاعدہ شکریہ ادا کیا۔
مذہبی شخصیات میں مولانا طارق جمیل، مشہور نوحہ خواں ندیم سرور اور میر حسن میر سے ملاقات ہوئی۔ نہایت مشہور ہونے کے باوجود یہ صاحبان انتہائی عاجزی و انکساری سے ملتے ہیں۔ ان سب کو ہمیشہ ٹی وی پر ہی دیکھا اور سنا تھا۔ سامنے دیکھ کر اور مل کر بہت خوشی ہوئی۔
گلوکار یاسر اختر ایک مرتبہ کسی پرواز پر نظر آئے۔ میں نے نام لے کر خوش آمدید کہا تو بہت حیران ہوئے کہ آپ نے پہچان لیا۔ چونکہ وہ کافی عرصہ سے ٹی وی پر نہیں دکھائی دے رہے تو شاید اس لیے مجھ سے پوچھا ہوگا۔ میں نے کہا ہم تو ’ایرڈ زون‘ (جو ان کے میوزیکل گروپ کا نام تھا) کے گانے سن سن کر بڑے ہوئے ہیں تو بہت خوش ہوئے۔
لندن میں گھومتے پھرتے ایک جگہ بھارت کے مشہور اداکار اوم پوری نظر آئے۔ جب ان کو دیکھا تو کافی دُور تھے۔ جب تک پہنچا تو وہ وہاں سے واپسی کے لیے نکل رہے تھے اور غالباً فیملی بھی ساتھ تھی۔ قلق رہا کہ کاش مل لیتا۔
انور مقصود صاحب دو تین مرتبہ انہی پروازوں پر ملے۔ پہلی مرتبہ تو آٹوگراف اور آنگن ٹیڑھا پر ہی بات ہوئی۔ اگلی بار ان کے لیے اسپیشل چائے بنائی اور بسکٹ لے کر نشست پر پہنچا اور ان کو مخاطب کیا۔ سر یہ لیں آپ کی ’بائے اور چسکٹ‘۔ یہ سن کر بڑا محظوظ ہوئے۔ یہ ان کے ایک ڈرامے کا کردار ’مسٹر موٹن‘ کا انداز تھا جو دو الفاظ کے پہلے دو حروف ہمیشہ آپس میں گڈ مڈ کر دیتا تھا۔
سال یاد نہیں لیکن ان دنوں انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی۔ لاہور سے اسلام آباد کی پرواز تھی۔ سب لوگ آگئے لیکن درجہ اوّل ابھی بھی خالی تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ انگلینڈ کی پوری ٹیم جہاز میں داخل ہونا شروع ہو رہی ہے۔ لمبے قد ہونے کی وجہ سے ہر کھلاڑی سر جھکائے اندر آ رہا تھا جیسے کسی ’بابا جہاز والی سرکار‘ کے آستانے پر مریدین۔
ان میں جناب اینڈریو فلنٹوف بھی موجود تھے۔ وہ سب کھلاڑی ماشااللہ اتنے لمبے تھے کہ میں ان کو استقبالیہ مشروبات پیش کرتے ہوئے باقاعدہ ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے نیچے کھڑا مزدور پھٹے کے اوپر کھڑے مستری کو پینڈولم بن کر اینٹ پکڑاتا ہے۔ پرواز مختصر تھی اور سب کھلاڑیوں نے ’گورا جہاز پر کچھ نہیں کھاتا‘ کے قول کا مکمل پاس کرتے ہوئے واقعی کچھ نہ کھایا۔ بس اس لیے مجھے اس پرواز پر کافی کچھ کھانا پڑگیا۔
فضائی عملے کی نوکری میں یہ فائدہ تو بہرحال ہے کہ آپ کو اپنی پسندیدہ شخصیات سے ملنے کے مواقع وقتاً فوقتاً میسر آتے رہتے ہیں۔ پرواز میں نہیں تو کہیں نہ کہیں کسی ہوائی اڈے پر ہی ملاقات ہوجاتی ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں