سندھ میں ایک روز کے دوران مزید 766 جانور ’لپمی اسکن‘ کا شکار
دادو: سیکریٹری سندھ لائیو اسٹاک تمیز الدین کھیرو نے بتایا ہے کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں ایک روز کے دوران مزید 766 جانوروں میں لمپی اسکن بیماری کی تشخیص ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں متاثرہ جانورں کی کل تعداد 24 ہزار 948 تک پہنچ چکی ہے جن میں سے 8 ہزار 491 جانور صحت یاب ہوچکے ہیں اور 16 ہزار 295 زیر علاج ہیں جبکہ 162 جانوروں کی اموات ہوچکی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں جانوروں میں لمپی اسکن بیماری کے کیس کراچی، ٹھٹہ، سجاول، بدین، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، تھرپارکر، عمر کوٹ، میرپور خاص، سانگھڑ، ٹنڈو اللہ یار، مٹیاری، شہید بےنظیرآباد، نوشہرو فیروز، گھوٹکی، خیرپور، شکار پور، جیکب آباد، کشمور، قمبر شہداد کوٹ، لاڑکانہ، دادو، جامشورو، تھانہ بھولا خان، کچو اور جوہی میں سامنے آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بیماری صرف گائیوں میں سامنے آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دودھ اور گوشت انسانی استعمال کے لیے محفوظ ہے اس وجہ سے انسانوں کو اس بیماری سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ گائیوں کے وزن اور دودھ میں کمی کی شکایات سامنے آئی ہیں۔
سیکریٹری لائیو اسٹاک کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ بیماری نئی تھی اور اس کی کوئی دوا یا ویکسین دستیاب نہیں تھی اس وجہ سے ویٹنری ڈاکٹروں نے جانوروں کو مختلف طرح کی ایٹنی بائیوٹکس، اینٹی انفلیمیٹری ادویات اور وٹامن کے انجکشن تجویز کیے۔
مزید پڑھیے: لمپی اسکن بیماری خطرناک ہے، 20 ہزار سے زائد مویشی متاثر ہوچکے، وزیر لائیو اسٹاک سندھ
تمیز الدین کھیرو نے مویشی مالکان کو تجویز دی ہے کہ وہ متاثرہ جانوروں کو صحت مند جانوروں سے دور رکھیں، باڑوں کو صاف رکھیں، جانوروں کو مچھروں اور کیڑوں سے محفوظ رکھیں، مچھر دانیوں کا استعمال کریں اور جانوروں، باڑوں اور اطراف میں تواتر کے ساتھ کیڑوں سے محفوظ رکھنے والا اسپرے کریں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بیماری ابتدائی طور پر افریقہ میں سامنے آئی تھی، بعد ازاں یہ مشرق وسطیٰ، ایشیا اور مشرقی یورپ میں بھی دیکھی گئی۔ حالیہ سالوں میں ایران، بھارت اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی اس بیماری نے سر اٹھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بیماری خون چوسنے والے کیڑوں جیسا کہ کچھ خاص قسم کی مکھیوں، مچھروں اور چچڑ سے پھیلتی ہے۔ اس کی علامات میں بخار اور جلد پر گلٹیاں نمودار ہونا ہیں جو کہ موت کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ تاہم اس بیماری میں شرح اموات 5 فیصد سے کم ہے۔