فیس بک کا روسی صدر کے خلاف تشدد پر زور دینے والی پوسٹس کی اجازت دینے کا فیصلہ
میٹا کمپنی کی جانب سے فیس بک اور انسٹاگرام صارفین کو یوکرین پر حملے کے تناظر میں روسی فوجیوں کے خلاف تشدد کی پوسٹس کی اجازت ہوگی۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق سوشل میٹ نیٹ ورک نے اپنی نفرت انگیز پوسٹس کی پالیسی میں عارضی تبدیلی کی ہے۔
اس کمپنی کی جانب سے عارضی طور پر کچھ پوسٹس میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹین یا بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لیکاشینکو کی موت کی خواہش کرنے والی پوسٹس کی بھی اجازت دی جارہی ہے۔
میٹا کے ایک ترجمان نے بتایا کہ یوکرین پر روس کے حملے کے پیش نظر ہم نے عارضی طور پر ان سیاسی جذبات کے اظہار کی اجازت دی ہے جو عام طور پر ہمارے قوانین جیسے تشدد اکسانے والی پالیسی کے خلاف ہوتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ جیسے روسی حملہ آوروں کی موت کی خواہش کی اجازت ہوگی، مگر ہم روسی شہریوں کے خلاف تشدد کی پوسٹس کو اجازت نہیں دیں گے۔
سیاسی رہنماؤں کی موت کی خواہش کی اجازت میں لوکیشن یا طریقہ کار کا خیال رکھا جائے گا۔
دوسری جانب امریکا میں روس کے سفارتخانے نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میٹا کمپنی کی 'انتہاپسندانہ' سرگرمیوں کو روکے۔
سفارتخانے نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ فیس بک اور انسٹاگرام کے صارفین نے ان پلیٹ فارمز کے مالکان کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ سچ کا تعین کریں اور ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف کریں۔
اس عارضی پالیسی کا اطلاق آرمینیا، آذربائیجان، ایسٹونیا، جارجیا، ہنگری، لٹویا، لتھوانیا، پولینڈ، رومانیہ، روس، سلواکیہ اور یوکرین میں ہوگا۔
میٹا کے ای میل بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ ہم ایسا اس لیے کررہے ہیں کیونکہ ایک مخصوص تناظر کا مشاہدہ کررہے ہیں، رشین سولجرز کی اصطلاح کا استعمال روسی فوج کے لیے ہورہا ہے، نفرت انگیز پوسٹس کی پالیسی کے تحت عام روسی شہریوں پر زبانی حملوں کی روک تھام جاری رہے گی۔
گزشتہ ہفتے روس نے کہا تھا کہ وہ اپنے ملک میں فیس بک پر پابندی عائد کررہا ہے جس کی وجہ روسی میڈیا کو پلیٹ فارم کی رسائی کو محدود کرنا ہے۔
اہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی جانب سے بھی اس تنازع کے پیش نظر نئے مواد پر پابندیوں کا نفاز کیا گیا جیسے روس کے سرکاری خبررساں ادارے آر ٹی اور اسپوٹنک کو یورپی یونین میں بلاک کردیا گیا۔