بُک ریویو: کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کیوں نہیں ہوتے؟
شہری منصوبہ ساز عارف حسن اور منصور رضا، اور اربن ریسورس سینٹر کی کتاب ’کراچیز پبلک ٹرانسپورٹ: آریجنز، ایولویشن اینڈ فیوچر‘ (Karachi’s Public Transport: Origins, Evolution and Future Planning) ہر اس شخص کو ضرور پڑھنی چاہیے جو کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے چیلنج اور اس کے حل کو سمجھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
یہ کتاب کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے مختلف ادوار کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اس حوالے سے بھرپور اور تجرباتی ڈیٹا بھی فراہم کرتی ہے جو محققین، منصوبہ سازوں اور شہریوں سبھی کے لیے ایک اہم ماخذ ہے۔
اس کتاب میں 8 ابواب شامل ہیں اور ہر باب کو ایک سے زیادہ لکھاریوں نے مل کر لکھا ہے۔ ابتدائی 2 ابواب تو اس بدلتے اور پھیلتے ہوئے شہر کا منظرنامہ بیان کرتے ہیں اور قارئین کو آزادی کے بعد سے کراچی کے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ہونے والے ارتقا سے متعارف کرواتے ہیں۔
مصنفین کچھ تاریخی اور تقابلی ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ کراچی کے رقبے کو دیکھتے ہوئے یہاں کا پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی ناکافی ہے۔ وہ بجا طور پر یہ دلیل دیتے ہیں کہ شہر میں طویل مدتی، پائیدار ترقی کا براہِ راست تعلق ایک اچھے ڈیزائن کردہ ٹرانسپورٹ نظام سے ہے۔ مصنفین نے خبردار کیا کہ اس کے بغیر گاڑیوں کی آمد و رفت اور رش کی وجہ سے شہر کے اندرونی علاقوں میں بھیڑ بھاڑ کے ساتھ ساتھ سماجی اور ماحولیاتی مسائل میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔
مصنفین کا کہنا ہے کہ شہر کے ٹرانسپورٹ نظام کو بار بار بہتر کرنے کی کوششوں کے باوجود اس میں خرابیاں موجود ہیں۔ ان کے مطابق مختلف حکومتوں نے پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری کی، ٹرانسپورٹ کی نئی پالیسیوں کی حمایت کی، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ متعارف کروائی اور اس حوالے سے کئی تجربات بھی کیے لیکن اس کے باوجود یہ اقدامات اپنے مطلوبہ اہداف کو حاصل نہیں کرسکے۔
ٹرانسپورٹ کے شعبے کے جائزے میں سیاسی فہم کی کمی، حکومتی پالیسیوں میں آنے والی تبدیلیاں، حکومتی سبسڈی میں کمی اور کرپٹ طرزِ عمل کی نشاندہی ہوتی ہی رہتی ہے لیکن اس کتاب کے مصنفین نے ان کی تفصیلات پر جس قدر توجہ دی ہے وہ اسے بہت معلوماتی کتاب بنا دیتی ہے۔
مثال کے طور پر کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ٹرانسپورٹ سہولیات چلانے والی کمپنیاں بینکوں سے گاڑیوں کی فنانسنگ حاصل نہیں کرپاتیں اور یوں انہیں ساہوکاروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے (یہ پہلو شہر کی لسانی سیاست کے ساتھ جڑا ہے)۔ پولیس کو بھتہ دینے اور دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ساہوکاروں سے لیے گئے سرمائے کے باعث کل لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لاگت میں اضافے کی وجہ سے گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار کروائے جاتے ہیں، مرمت پر کم سے کم اخراجات کیے جاتے ہیں اور غیر تربیت یافتہ عملے سے کام لیا جاتا ہے۔
مصنفین نے نجی سطح پر فراہم کی جانے والی ٹرانسپورٹ کی کارکردگی اور کامیابی پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ مصنفین سمجھتے ہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے حوالے سے کثیر ادارہ جاتی انتظامات کے باوجود پالیسی ساز حلقوں میں یہ بات مشہور ہوچکی ہے کہ اکیلا نجی شعبہ ہی شہر میں مناسب ٹرانسپورٹ فراہم کرسکتا ہے۔ اس خیال نے خاص طور پر 1990ء کی دہائی کے اواخر میں بین الاقوامی ترقیاتی اداروں کے دباؤ کے نتیجے میں زور پکڑا ہے۔
میرے نزدیک، مصنفین کا تجزیہ بتاتا ہے کہ ہمیں پبلک پرائیویٹ اختلاف سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور ماضی کی ناکامیوں کی وجوہات کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی میں دونوں شعبوں میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ ہمیں مؤثر حل تیار کرنے کے لیے ماضی میں ہونے والی ناکامیوں کی وضاحت کرنی ہوگی پھر چاہے وہ ناکامی مرمت اور دیکھ بھال کے بجٹ پر عدم توجہی ہو یا سی این جی پالیسیوں کے غیر متوقع اثرات، حکومت کی جانب سے سبسڈی فراہم کرنے کے خالی وعدے ہوں یا ٹرانسپورٹرز سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ محدود تعلق۔
کتاب کے تیسرے اور چوتھے باب میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مختلف اسٹیک ہولڈرز بشمول مسافر، کاروبار اور سرکار نے ٹرانسپورٹ کے بحران پر کس طرح کا ردِعمل دیا اور ساتھ ان چیلنجز کا بھی کچھ ذکر ہے جن کا یہ اسٹیک ہولڈرز آج بھی سامنا کررہے ہیں۔
ان دونوں ابواب میں وہ طریقے بیان کیے گئے ہیں جن کی مدد سے عوام ایک اچھے نظامِ ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی سے نمٹ رہے ہیں۔ ان میں سپریم کورٹ کے احکامات پر پابندی لگنے سے قبل چنگچی رکشوں کا بڑھتا ہوا استعمال، موٹر سائیکلوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ، پک اینڈ ڈراپ کے انتظامات اور آن لائن سروسز (جو صرف صاحبِ ثروت افراد ہی استعمال کرسکتے ہیں) شامل ہیں۔
اگرچہ ’دی رائیڈ ہیلنگ کلچر: دی وائیڈننگ گیپ بٹ وین دی ہَیو اینڈ ہَیو ناٹس‘ (The Ride Hailing Culture: The Widening Gap Between the Haves and the Have Nots) نامی چوتھے باب میں رائیڈ ہیلنگ ایپلیکیشنز کے فوائد و نقصانات کو بیان کیا گیا ہے لیکن پھر بھی یہ کچھ نامکمل محسوس ہوتا ہے۔ بحیثیت قاری مجھے امید تھی کہ مصنفین ان خدمات کے حوالے سے اپنے تجزیے اور مطالعے کی مزید وضاحت کریں گے۔
باب نمبر 5، 6 اور 7 اس کتاب کے دل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ابواب میں منصور رضا نے تحقیق کی بنیاد پر ٹرانسپورٹ سے متعلق چیلنجز کو مختلف اسٹیک ہولڈرز کے نکتہ نظر سے بیان کیا ہے۔ اس کے بعد وہ قاری کو کراچی کے شہریوں کی زندگی، امنگوں اور روز مرہ زندگی میں موجود مشکلات سے روشناس کرواتے ہیں۔
اس کتاب میں ہم مختلف لوگوں کے سفر کے بارے میں جانتے ہیں جن میں ٹیکسی اور رکشہ ڈرائیور بھی ہیں اور ٹرک اور کارگو ڈرائیور بھی، مکینک اور پولیس کانسٹیبل بھی ہیں اور ماہرینِ ماحولیات اور بینکر بھی۔
اس کے علاوہ کتاب کا ساتواں باب مکمل طور پر خواتین مسافروں کے بیانات پر مشتمل ہے۔
کتاب کا ہر باب اسٹیک ہولڈرز سے حاصل ہونے والی اہم معلومات اور تجربے کو بیان کرتا ہے۔ یہ وہ معلومات اور تجربہ ہے جو منصوبہ بندی کے کسی بھی عمل میں شامل نہیں ہوتا۔
کتاب میں مصنفین نے ایک اہم نکتہ اٹھایا ہے اور وہ یہ کہ جب تک منصوبہ بندی میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کی شراکت نہیں ہوگی تب تک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ہونے والی منصوبہ بندی کے محدود نتائج ہی حاصل ہوں گے۔ مفادات کی کثرت اسے ایک چیلنج بنادیتی ہیں لیکن اگر حالات میں طویل مدتی بہتری لانی ہے تو اس پر فوری توجہ دینی ہوگی۔
مجھے ذاتی طور پر پبلک ٹرانسپورٹ سے متعلق خواتین کی مشکلات پر مشتمل باب اچھا لگا۔ اسے اربن ریسورس سینٹر اور انادل افتخار نے تحریر کیا ہے۔ باب میں اس بات کی وضاحت ہے کہ کس طرح فعال پبلک ٹرانسپورٹ نظام کی عدم موجودگی شہریوں کو ان کی عزت، فلاح اور شہر کی زندگی سے وابستہ کسی بھی سماجی اور معاشی مواقع سے محروم کر رہی ہے۔
اس باب میں خاتون مسافروں سے کیے گئے 15 انٹرویوز کو اختصار کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ ان مسافروں میں طالبات اور بلو اور وائٹ کالر نوکری پیشہ خواتین بھی شامل تھیں۔ ان انٹرویوز کو پڑھنا بہت تکلیف کا باعث تھا۔ وہ ہر روز ہراساں کیے جانے کے خطرے، بسوں میں زیادہ ہجوم، گاڑیوں کی خرابی، بسوں کے بے قاعدہ اوقات، چوری، کرائے کے مربوط نظام کی عدم موجودگی اور پیدل چلنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی سے نمٹتی ہیں۔ مصنفین کے مطابق اکثر خواتین کے لیے روزمرہ سفر ہی بڑی تکلیف اور ’سفر سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں ہر روز ایک شدید اضطراب‘ کا باعث ہوتا ہے۔
سفری سہولیات خواتین کی تعلیم اور کام پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس باب میں نادانستہ طور پر طبقاتی استحقاق، فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی عدم موجودگی اور ٹرانسپورٹ کے موجودہ نظام کی زیادہ معاشی اور سماجی قیمت پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔ یہ مرد اور خواتین مسافروں کے سفری رجحان میں فرق اور خواتین کو درپیش مشکلات کے حوالے سے ہماری معلومات میں اہم اضافہ ہے۔
عارف حسن کا لکھا ہوا آخری باب دیگر ابواب میں موجود حاصلات کا تجزیہ کرکے آگے بڑھنے کے لیے کچھ سفارشات پیش کرتا ہے۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ ماضی میں حکومتی منصوبے کیوں ناکام ہوئے، شہر پر ان کے کیا اثرات ہوئے اور یہ کہ کراچی کو پیدل چلنے والوں اور مسافروں کے لیے کس طرح ایک بہتر شہر بنایا جائے۔
جوکوئی بھی شہر کے ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری لانے میں دلچسپی رکھتا ہے اس کے لیے یہ باب باقاعدہ ادارہ جاتی اور تصوراتی سفارشات پیش کرتا ہے جنہیں مزید بحث اور عمل کی بنیاد بننا چاہیے۔
اس کے علاوہ کتاب میں موجود ضمیمہ جات، سوالات کی فہرست، انٹرویوز کے متن اور اہم اسٹیک ہولڈرز، فلائی اوور، پلوں اور انڈر پاسوں کی فہرست کو بھی سراہنا چاہیے۔ یہ اس شہر میں ٹرانسپورٹ کے نظام میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ اور محققین کے لیے اہم حوالے ثابت ہوسکتے ہیں۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مصنفین نے کراچی شہر کے ساتھ اپنی وابستگی کا حق ادا کرتے ہوئے شہر کی ٹرانسپورٹ کی تاریخ اور چیلنجوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ وسیع پیمانے پر اسٹیک ہولڈرز کی آوازوں کو شامل کیا جائے۔ مصنفین نے اس کتاب میں ترقی کے لیے متبادل نقطہ نظر اور سمت تجویز کی ہے۔
بہتر ہوتا کہ ہر باب کے اختتام پر حاصلاتِ تحقیق بیان کرنے کے بعد کچھ اضافی بحث بھی کی جاتی۔ کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ نظام پر بات کرتے ہوئے دیگر شہروں کے ساتھ تقابل بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ ایک ایسی کتاب ہے جو کراچی میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ہماری معلومات میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ میں بہتری کے حوالے سے ہونے والے مباحث کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ بلاشبہ کراچی کی ٹرانسپورٹ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
نام کتاب: Karachi’s Public Transport: Origins, Evolution and Future Planning
مصنفین: عارف حسن، منصور رضا، اربن ریسورس سینٹر
ناشر: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس
آئی ایس بی این: 0190706395-978
تعداد صفحات: 266
یہ تبصرہ 06 مارچ 2022ء کو ڈان بکس اینڈ آتھرز میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں