• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

فلور کراسنگ کا قانون کیا ہے اور رکن کی نااہلی کب اور کیسے ہوگی؟

شائع March 11, 2022 اپ ڈیٹ March 21, 2022

متحدہ اپوزیشن کی جانب سے 8 مارچ کو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت کی طرف سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ جو بھی حکومتی رکن وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرے گا وہ فوری طور پر نااہل ہوجائے گا۔

جہاں تک نااہلی کی بات ہے، وہ تو درست ہے کیونکہ قومی اسمبلی میں چند آئینی معاملات پر پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والا رکن نااہل ہوجائے گا، لیکن یہ نااہلی کس طرح ہوگی؟ اس میں کتنا عرصہ درکار ہوگا؟ اس کا طریقہ کار کیا ہے، اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی جارہی ہے۔

چونکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے حال ہی میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے واضح طور پر کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے انفرادی طور پر کسی سے رابطہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ حکومتی اتحادی سیاسی جماعتوں سے براہِ راست رابطہ کیا جائے گا۔

مولانا کی اس وضاحت کا مقصد یہی تھا کہ حکومتی ارکان کو توڑ کر فلور کراسنگ نہیں کرائی جائے گی، لیکن سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اتحادی جماعتوں کی حمایت اپنی جگہ لیکن انفرادی طور پر حکومتی ارکان کی حمایت کے بغیر یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی۔ یہی سبب ہے کہ حکومتی ارکان کو تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی صورت میں نااہلی کا پیغام دیا جارہا ہے۔

حکومتی ارکان کی ناراضگی کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا اپوزیشن کو یقین ہے۔ وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ شدید مہنگائی کی وجہ سے غیر مقبول ہوتی حکومت اور اس کے ارکانِ اسمبلی کو وزیرِاعظم اور وزرا کی جانب سے کوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔

پارلیمنٹ لاجز کی راہداریوں میں سورج ڈھلنے کے بعد ہونے والی گہما گہمی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حکومتی ارکان کو تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا ایک خوبصورت بہانا ہاتھ لگ گیا ہے جس نے ان کو فلور کراسنگ کا جواز فراہم کردیا ہے، لیکن فلور کراسنگ کے حوالے سے ہمارا آئین کیا کہتا ہے وہ کافی دلچسپ ہے۔

آئین کیا کہتا ہے؟

1973 کے ابتدائی آئین میں کابینہ کے خلاف عدم اعتماد کے سلسلے میں قومی اسمبلی کے اختیار کو کافی محدود کردیا گیا تھا، اور ایسی شقیں شامل کی گئی تھیں جن کے تحت کابینہ کو برطرف کرنا عملی طور پر نہایت ہی مشکل کام تھا۔

پاکستان کی دستوری تاریخ نامی کتاب میں اسد سلیم شیخ لکھتے ہیں کہ ’مارچ 1985ء میں ہونے والی آئینی ترامیم کے تحت وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے طریقہ کار کو آسان کردیا گیا‘۔

لیکن میاں نواز شریف نے پیپلزپارٹی کی حمایت سے 14ویں ترمیم منظور کروائی تو فلور کراسنگ کا جو قانون تھا وہ ناصرف کافی سخت ہوگیا، بلکہ عدالت کو بھی رکن کی نااہلی کی صورت میں اپیل سننے کا اختیار نہیں دیا گیا تھا، لیکن 18ویں ترمیم میں صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 63 اے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی پارٹی کا رکن پارٹی فیصلے کے خلاف اگر ان 3 اہم مواقع پر ووٹ دے گا تو اسے نااہلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جن میں

  • وزیرِاعظم یا وزیراعلیٰ کا انتخاب
  • اعتماد یا عدم اعتماد کا ووٹ
  • کسی مالی بل یا دستوری ترمیمی بل میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینا

اس لحاظ سے آئین نے واضح کردیا ہے کہ موجودہ صورتحال میں جب وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جارہی ہوگی تو اس وقت اگر کوئی بھی رکن پارٹی کے خلاف ووٹ دے گا تو وہ اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے گا، لیکن یہ کیسے ہوگا اور اس میں کتنا وقت لگے گا؟

اس سلسلے میں دستور میں اسی آرٹیکل میں وضاحت کی گئی ہے، اور کہا گیا ہے کہ جب کوئی پارٹی کا رکن پارٹی فیصلے سے انحراف کا مرتکب ہوگا تو پہلے پارٹی کا سربراہ اس رکن کو اظہار وجوہ کا ایک نوٹس جاری کرے گا، جس میں الزام بیان کیا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ کیوں نہ اس کی نااہلی کا اعلان کیا جائے۔ لیکن اس اظہار وجوہ کے نوٹس کا جواب کتنے روز کے اندر دینا ہے اس بارے میں وضاحت نہیں کی گئی، لیکن 14ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کو 7 روز میں جواب دینے کے لیے پابند کیا گیا تھا۔

اندازہ یہی ہے کہ اگر پارٹی سربراہ کی جانب سے دی گئی ایک معینہ مدت کے دوران منحرف رکن جواب نہیں دیتا یا پارٹی سربراہ کو مطمئن نہیں کرتا تو اس کے بعد پارٹی سربراہ تحریری اعلان کرے گا کہ فلاں رکن پارٹی سے منحرف ہوچکا ہے لہٰذا اسے نااہل قرار دیا جائے۔ اس طرح کا اعلان اسپیکر اور چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دیا جائے گا۔

اس آرٹیکل کی تشریح کی پیرا 3 کی شق 1 کے تحت پارٹی سربراہ کی جانب سے اعلان کی کاپی کی وصولی کے بعد ایوان کا صدارت کنندہ (اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ ) 2 دن کے اندر وہ اعلان چیف الیکشن کمشنر کو بھیج دے گا۔ اگر صدارت کنندہ یہ اعلان چیف الیکشن کمشنر کو بھیجنے میں ناکام ہوجائے تو اس اعلان کو ارسال کردہ تصور کیا جائے گا۔ چیف الیکشن کمشنر اس اعلان کی وصولی کے 30 دنوں کے اندر اس اعلان کی توثیق یا اس کے برعکس فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا۔

شق 4 کے مطابق اگر الیکشن کمیشن اعلان کی توثیق کردے تو رکنیت ختم ہوجائے گی اور نشست کو خالی قرار دیا جائے گا۔ شق 5 کے مطابق منحرف ہونے والے رکن کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 30 دنوں کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل داخل کرنے کا حق دیا گیا ہے، اور سپریم کورٹ 90 روز میں اس پر فیصلہ کرے گی۔

آئین میں وضاحت کے بعد ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ اگر کوئی حکومتی رکن تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دے دے تو اس کی رکنیت ختم ہونے میں کم از کم 5 ماہ سے تو زائد کا عرصہ لگ ہی جائے گا۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ حکومت کی جانب سے ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی چلوائی گئی ہے کہ تحریک عدم اعتماد والے دن حکومت کا ایک کے علاوہ کوئی بھی رکن اس کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا، یعنی ایوان کے اندر اس ایک کے علاوہ کوئی بھی حکومتی رکن موجود ہی نہیں ہوگا۔

ایوان میں شرکت سے روکنے کا آئینی اختیار تو کسی کو بھی نہیں دیا گیا۔ دوسری بات یہ کہ نااہلی کا جو خوف دلایا جا رہا ہے وہ اسی صورت ممکن ہوسکے گا کہ جب کوئی رکن پارٹی پالیسی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرے، اور یہ حمایت اس وقت ممکن ہوسکے گی جب رکن ایوان کے اندر موجود ہو اور اس کی حمایت یا مخالفت کرے۔

چلیے اب آئیے 90 کی دہائی میں چلتے ہیں۔ میاں نواز شریف، اپنے دوسرے دورِ حکومت میں جب دو تہائی اکثریت لے کر حکومت میں آئے تو پیپلزپارٹی کی حمایت سے انہوں نے آئین کی 13ویں ترمیم پاس کروائی۔ یکم اپریل 1997ء کو یہ آئینی ترمیم دونوں ایوانوں سے ایک ہی دن میں منظور ہوگئی اور دونوں ایوانوں میں اس ترمیم کی مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہ پڑا۔

اس ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاالحق کی جانب سے آئین میں داخل کی گئیں متنازعہ اور غیر جمہوری شقیں حذف کرلی گئیں۔ صدر اور صوبائی گورنرز کو اسمبلیاں توڑنے کا جو اختیار تھا وہ واپس لے لیا گیا، صدرِ مملکت کو حاصل چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری کا صوابدیدی اختیار ختم کردیا گیا اور صدر کو وزیرِاعظم کے مشورے کا پابند کردیا گیا۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ جنرل ضیاالحق کے بیٹے اعجاز الحق نے بھی اس ترمیم کی حمایت کی۔

پھر محض 3 ماہ بعد 14ویں آئینی ترمیم منظور کروا لی گئی، اور یہ ترمیم سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے خلاف تھی۔ آئین کے آرٹیکل 63 میں 63 اے کا بھی اضافہ کیا گیا جس میں کہا گیا کہ 'اگر پارلیمانی پارٹی کا رکن وفاداریاں تبدیل کرتا ہے تو سیاسی جماعت کا سربراہ یا ان کی طرف سے نامزد کردہ شخص متعلقہ ممبر کو تحریری نوٹس دے گا۔ جس میں اسے 7 روز کے اندر وجہ بتانے کو کہا جائے گا۔ کسی ممبر نے وفاداری تبدیل کی ہے یا نہیں اس کا تعین متعلقہ سیاسی جماعت کی ڈسپلنری کمیٹی رکن کی وضاحت آنے کے بعد کرے گی۔ اگر یہ انضباطی کمیٹی فیصلہ کردے کہ فاضل رکن نے سیاسی وفاداری تبدیل کی ہے تو فاضل رکن پارٹی سربراہ کے پاس اپیل کرسکے گا'۔

14ویں ترمیم میں یہ بھی درج تھا کہ 'چیف الیکشن کمشنر پارٹی سربراہ کے اعلان موصول ہونے کے 7 دن کے اندر رکن کی نشست خالی قرار دے کر اس پر ضمنی انتخاب کے شیڈول کا اعلان کرکے سیاسی جماعت کے سربراہ کے فیصلے پر عملدرآمد کرے گا۔ اسی شق کے تحت کیے گئے اقدامات کو سپریم کورٹ سمیت کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

18ویں ترمیم میں 14ویں ترمیم کی کافی شقیں واپس لی گئیں، جیسے رکن کو الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا، بالکل اسی طرح 14ویں ترمیم میں ڈسپلنری کمیٹی کا جو تذکرہ تھا وہ 18ویں ترمیم میں ختم کردیا گیا۔

آئین کی شق 63 اے گزشتہ کئی دنوں سے موضوع بحث بنی ہوئی ہے، اور طرح طرح کی باتیں کی جارہی ہیں، جس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ووٹنگ کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی کسی رکن کو اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ کرتے دیکھ لے تو وہ فوری طور پر ووٹ کینسل کرسکتے ہیں، بظاہر آئین میں ایسا کچھ درج نہیں ہے۔

اس حوالے سے وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے بھی بیان دیا اور کہا ہے کہ 18ویں ترمیم میں تمام جماعتوں نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسپیکر کو اختیار دیا تھا کہ وہ ’فلور کراسنگ‘ کرنے والے کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو نااہل قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن اس اہم ترین بیان میں وزیر داخلہ صاحب نے آئین کی کسی شق کا ذکر نہیں کیا کہ 18ویں ترمیم میں موجود کس شق کے تحت اسپیکر صاحب یہ کام کرسکتے ہیں۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ہم نے پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر سے بھی رابطہ کیا اور ان کا مؤقف ہے کہ ووٹ دینا ایک رکن کا حق ہے، اسپیکر کے پاس اسے روکنے کا کوئی اختیار ہے اور نہ ہی آئین اس پر کوئی قدغن لگاتا ہے۔ یعنی رکن اسمبلی اپنا ووٹ دے سکتا ہے۔ جہاں تک فلور کراسنگ کی بات ہے تو وہ ووٹ دینے کے بعد ہی لاگو ہوگی۔ ہر رکن کے پاس یہ آئینی اور قانونی حق ہے کہ چاہے کوئی عدم اعتماد کی تحریک ہو یا اعتماد کا ووٹ ہو وہ اس میں ووٹ دے سکتا ہے۔

فلور کراسنگ کے حوالے سے فرحت اللہ بابر صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد فلور کراسنگ روکنے کے لیے جامع آئین سازی کی گئی ہے اور اس حوالے سے تمام چیزیں آئین میں واضح ہیں۔ یہ کہنا کہ ارکان کو ووٹ دینے سے روکا جائے گا یہ نہ اسپیکر کے اختیار میں ہے اور نہ ہی حکومت کے اختیار میں۔ کیونکہ رکن اسمبلی کو ووٹ دینے کا اختیار آئین دیتا ہے۔

عدم اعتماد تحریک کی کارروائی کا طریقہ کار

تحریک عدم اعتماد کے لیے پہلے ایک تحریک پیش ہوتی ہے۔ اپوزیشن نے یہ قرارداد جمع کروائی ہے کہ ہم اس ایجنڈے پر اجلاس بلانا چاہتے ہیں۔ اجلاس میں اسپیکر کی جانب سے تحریک پیش کرنے کا کہا جائے گا جو قائد حزب اختلاف پیش کریں گے۔

وہ اپنے خطاب میں یہ بتائیں گے کہ وہ یہ تحریک کیوں لانا چاہتے ہیں۔ پھر وزیرِاعظم کی جانب سے اس کا جواب دیا جائے گا اس طرح یہ سلسلہ 2 سے 3 دن تک بھی چل سکتا ہے۔

ووٹنگ کے مرحلے میں ایوان تقسیم کیا جاتا ہے۔ اسپیکر اپنے دائیں جانب موجود لابی میں حکومت کے حامی جبکہ بائیں جانب کی لابی میں اپوزیشن کے حامی اراکین کو جانے کا کہتے ہیں۔ ووٹنگ شروع ہونے سے قبل 5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں تاکہ تمام اراکین ایوان میں آجائیں۔ اراکین کے ایوان میں آنے کے بعد تمام دروازے بند کروا دیے جاتے ہیں اور ایوان کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ دونوں جانب کی لابیوں پر اسمبلی کا عملہ موجود ہوتا ہے جو تمام اراکین کے نام نوٹ کرتا ہے تاکہ گنتی میں آسانی ہو۔

حرفِ آخر

آخر میں ہم یہاں یہ بات ضرور کہہ سکتے ہیں کہ آئین سے متعلق حکومت اور اپوزیشن کی اپنی اپنی تشریح موجود ہے۔ اگر ووٹنگ کے دوران ایسا کوئی عمل ہوا جس پر حکومت اور اپوزیشن میں اختلاف پیدا ہوجائے تو یقینی طور پر آئین کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے، اور حکومت شاید یہی چاہتی ہے تاکہ اسے مزید کچھ ماہ مل جائیں۔

لہٰذا آنے والے دن پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں، امید یہی ہے کہ جو بھی فیصلہ ہو، وہ ملک کو نئے بحران میں لے جانے کے بجائے ترقی کے سفر پر گامزن کرے.

عبدالرزاق کھٹی

عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

siar ahmad hamdard Mar 12, 2022 02:07am
Nice Information

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024