• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

تحریک عدم اعتماد کے بعد دارالحکومت میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا

شائع March 10, 2022
آصف زرداری سے ملاقات سے ایک روز قبل  چوہدری شجاعت نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی تھی—تصویر: ٹوئٹر
آصف زرداری سے ملاقات سے ایک روز قبل چوہدری شجاعت نے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی تھی—تصویر: ٹوئٹر

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرانے کے تناظر میں سیاسی درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ہی وفاقی دارالحکومت میں سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں، جس میں ایک اہم حکومتی اتحادی کی پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سےملاقات بھی شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ لندن میں پی ٹی آئی کے منحرف رہنما جہانگیر ترین سے ملاقات کے لیے حکمراں جماعت کے رہنما روانہ ہوئے اور عدم اعتماد کے اقدام کے حوالے سے مختلف نیوز کانفرنس کی گئیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) مرکز اور پنجاب میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اہم اتحادی ہے، جس کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے ایک وفاقی وزیر کے ہمراہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

اس سے ایک روز قبل ہی چوہدری شجاعت حسین نے اسلام آباد میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی تھی۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے کی کوشش میں پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر خان ترین کے دھڑے میں شمولیت کے اعلان کے صرف دو روز بعد پی ٹی آئی کے منحرف رہنما علیم خان بھی جہانگیر ترین کے ساتھ حالیہ پیش رفت پر بات چیت کرنے کے لیے بدھ کی صبح لندن روانہ ہوئے۔

لندن میں ان کی آمد نے جہانگیر ترین سےملاقات کے بارے میں قیاس آرائیوں کے ساتھ ہی لاہور اور اسلام آباد میں ڈرامائی سیاسی پیش رفت پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے ممکنہ ملاقات کے بارے میں سوالات کو جنم دیا۔

جب جہانگیر ترین اور نواز شریف کے مابین بات چیت کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو پارٹی کے ایک ذریعے نے لندن میں ڈان کے نمائندے کو بتایا کہ ’تمام قانونی آپشنز زیر غور ہیں۔‘

وزیراعظم کی تقریر پر ردِ عمل

دوسری جانب کراچی میں وزیراعظم کی تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ عوام کو جیلوں میں ڈالنا وزیراعظم کا کام نہیں بلکہ یہ فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام ہے کہ کون جیل جائے اور کس کو رہا کیا جائے۔

انہوں نے عمران خان سے کہا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کرنے پر ’سرِ عام معافی‘ مانگیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ عمران خان مولانا فضل الرحمٰن، سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نشانہ بنا رہے ہیں جنہوں نے ملک کے لیے عظیم خدمات انجام دیں۔

راجا پرویز اشرف نے کہا کہ وزیر اعظم کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ’جو بویا جائے وہ کاٹنا پڑتا ہے‘ اور اگر اس طرح کے سیاسی کلچر کو فروغ دیا گیا تو کوئی بھی اپنی عزت کی حفاظت نہیں کر سکے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نفرت اور تکبر سے بھرے ہوئے ہیں اور ’ایک متکبر شخص ہمیشہ بزدل ہوتا ہے۔‘

اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ ’تحمل کا مظاہرہ کریں کیونکہ تحریک عدم اعتماد میں کچھ وقت باقی ہے‘۔

وزیراعظم کی تازہ ترین تقریر میں لفظ 'بندوق' کے استعمال کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ عمران خان پہلے ہی ہتھیار پھینک چکے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024