• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

تحریک عدم اعتماد کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کو ہٹانے کی کوششیں زور پکڑ گئیں

شائع March 9, 2022 اپ ڈیٹ March 10, 2022
وزیر اطلاعات کے مطابق عثمان بزدار کی عمران خان سے وزیراعظم ہاؤس میں ون آن ون ملاقات بھی ہوئی—فائل فوٹو: پی آئی ڈی
وزیر اطلاعات کے مطابق عثمان بزدار کی عمران خان سے وزیراعظم ہاؤس میں ون آن ون ملاقات بھی ہوئی—فائل فوٹو: پی آئی ڈی

اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد تمام توپیں اب وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف اٹھتی دکھائی دے رہی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس پس منظر میں وزیر اعظم نے عثمان بزدار سے ملاقات کی اور انہیں تسلی دی کہ وہ حکمران جماعت کی 5 سالہ مدت کے اختتام تک صوبے پر حکومت کرتے رہیں گے۔

تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے فوراً بعد عمران خان نے متعدد ڈیجیٹل صحافیوں سے ملاقات کی اور واضح طور پر کہا کہ وہ کہیں نہیں جا رہے ہیں اور نہ ہی وہ اپوزیشن کے اقدام سے خوفزدہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی

وزیر اطلاعات کے مطابق عثمان بزدار کی عمران خان سے وزیراعظم ہاؤس میں ون آن ون ملاقات بھی ہوئی، میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے استعفیٰ کی پیشکش کی تاکہ وزیراعظم پی ٹی آئی کے ناراض رہنما علیم خان اور جہانگیر ترین کو مطمئن کر سکیں، جنہوں نے ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم کہا گیا کہ وزیراعظم نے عثمان بزدار کا استعفیٰ مسترد کر کے انہیں کہا کہ وہ اس وقت تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرتے رہیں گے جب تک پی ٹی آئی اپنی مدت حکومت مکمل نہیں کر لیتی۔

دوسری جانب وزیراعظم نے اپنے دفتر میں متعدد قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں جن میں فضل محمد خان، محمد افضل خان دھندلہ، غلام محمد لالی، امجد خان نیازی، مخدوم سمیع الحسن، یعقوب شیخ، ساجدہ ذوالفقار اور عندلیب عباس شامل ہیں۔

ملاقاتوں میں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اسد عمر، پرویز خٹک، شفقت محمود اور عامر ڈوگر بھی موجود تھے۔

مزید پڑھیں:وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے استعفے کی پیشکش کر دی

دریں اثنا وزیراعلیٰ پنجاب بھی حرکت میں آئے اور موجودہ سیاسی صورتحال، تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کی حکمت عملی اور مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کے لیے سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی سے ملاقات کی۔

جہانگیر ترین اور علیم خان کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کے مطالبے کے تناظر میں وفاقی حکومت نے اپنی پارٹی کے ناراض رہنماؤں کو راضی کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ وہ جانشین کے لیے نام تجویز کریں۔

تاہم مسلم لیگ (ق) کے چوہدریوں نے اپنی اتحادی جماعت پی ٹی آئی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے وزیر اعظم خان کے 'پرانے دوست' علیم خان کے نام پر غور کرنے کے خلاف پیشگی خبردار کیا۔

وزیر دفاع پرویز خٹک کی مصالحت کی کوششیں

ادھر وزیر دفاع پرویز خٹک نے منگل کو ترین گروپ اور عثمان بزدار سے متعلق مخمصے پر مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے رابطہ کیا، ترین گروپ میں مبینہ طور پر دو درجن سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی اور تقریباً 10 اراکین قومی اسمبلی شامل ہیں، جن میں سے اکثریت کاتعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن کو ایسی شکست دیں گے کہ یہ 2028 تک نہیں اٹھ سکیں گے، وزیر اعظم

پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک نے ترین گروپ کو کہا کہ اگر وہ وزیراعلیٰ پنجاب سے خوش نہیں ہیں تو متبادل نام تجویز کریں جس پر حکومت غور کرسکتی ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ق) کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ پرویز خٹک نے پارٹی سے رابطہ کر کے وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لیے علیم خان کے نام کے حوالے سے رائے مانگی تھی لیکن پارٹی نے صاف انکار کردیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی قیادت نے وزیر دفاع کو بتایا کہ وہ دیگرناموں پر غور کر سکتی ہے، لیکن علیم خان کے نام پر نہیں‘۔

اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے وزیراعظم خان سے ملاقات میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویزالٰہی کا نام وزیراعلیٰ کے لیے تجویز کیا تھا اور کہا تھا کہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما ایک تجربہ کار سیاستدان ہونے کی وجہ سے صوبے کے حالات کو سنبھال سکیں گے۔

مزید پڑھیں:تحریک عدم اعتماد میں 172 سے زائد ووٹ لیں گے، متحدہ اپوزیشن کا دعویٰ

یوں پی ٹی آئی کی قیادت کو دوہرے خطرے کا سامنا ہے، اگر یہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے علیم خان پر راضی ہو جاتے ہیں تو چودھری ناراض ہو جائیں گے اور اگر وہ اپنے اتحادی کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں تو ترین گروپ عمران خان سے علیحدگی اختیار کر سکتا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی اراکین قومی اسمبلی سے ملاقات

دریں اثنا عثمان بزدار نے بھی کچھ اراکین قومی اسمبلی سے ملاقات کی جنہوں نے اس سے قبل دن میں وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی۔

اسلام آباد میں پنجاب ہاؤس میں وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنے والوں میں پی ٹی آئی کے ملک عامر ڈوگر، مخدوم سید سمیع الحسن گیلانی، ڈاکٹر محمد افضل دھندلہ اور غلام بی بی بھروانہ شامل تھے۔

وزیراعلیٰ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق ایم این ایز نے وزیراعظم خان اور وزیراعلیٰ پنجاب پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عثمان بزدار نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ ہم سب متحد ہیں اور مستقبل میں بھی متحد رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:ترین گروپ کا ہر رکن متفق ہے کہ مائنس بزدار پر بات آگے بڑھے گی، نعمان لنگڑیال

انہوں نے دعویٰ کیا کہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن کے پاس ارکان کی تعداد کی کمی ہے اور یہ کہ وزیراعظم عمران خان کو تمام اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل رہی اور آئندہ بھی حاصل رہے گی۔

وزیر اعظم سے ملاقات کے بارے میں پنجاب حکومت کے ترجمان حسن خاور نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے انتخاب کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے حوالے سے وزیر اعلیٰ بزدار نے نہ تو علیم خان کے خلاف اور نہ ہی چوہدری پرویز الٰہی کے حق میں بات کی ۔

اگرچہ مسلم لیگ (ق) نے عمران خان کی حمایت برقرار رکھی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی رائے ہے کہ بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کی وجہ سے چوہدریوں کو بالآخر اپوزیشن میں شامل ہونا پڑے گا۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ ہممسلم لیگ (ق) کی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہیں عوام کے ساتھ ساتھ اپنی سیاست کی خاطر اپوزیشن میں شامل ہونے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نہ صرف چوہدری بلکہ ایم کیو ایم اور بی اے پی بھی اپوزیشن کے وزیراعظم خان کو ہٹانے کے اقدام میں شامل ہوں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024