امریکا اور برطانیہ نے روس سے تیل کی درآمدات پر پابندی عائد کردی
امریکا اور برطانیہ نے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد پہلا سخت ترین قدم اٹھاتے ہوئے روس سے تیل کی درآمدات پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکا کی جانب سے پابندی کا اعلان کیا جس کے تحت روس کی قدرتی گیس اور کوئلے سمیت وسیع تر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: ’اگر روسی تیل پرپابندی لگائی تو قیمت 300 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہیں‘
پہلے سے ہی تیزی سے بڑھتی ہوئی گیس کی قیمتوں پر ممکنہ اثرات کے خدشے کے باوجود امریکی ڈیموکریٹس نے اس پابندی کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی دھمکی دی ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ روسی تیل اب امریکی بندرگاہوں کے لیے قابل قبول نہیں رہے گا اور امریکی عوام کو صدر ولادمیر پیوٹن کے جنگی جنون کی وجہ سے ایک اور بڑا دھچکا لگے گا۔
وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اتحادیوں کے ساتھ قریبی مشاورت سے کیا گیا ہے اور یوکرین میں پیوٹن کو کبھی بھی فتح نصیب نہیں ہو گی۔
بائیڈن نے یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا جب اس سے قبل ہی یورپ کی دوسری سب سے بڑی معیشت برطانیہ نے اعلان کیا تھا کہ برطانیہ سال کے آخر تک روسی تیل کی درآمدات پر پابندی عائد رکھے گا۔
یہ بھی پڑھیں: یوکرینی شہروں کے لیے انسانی راہداریاں کھولیں گے، روس
امریکی صدر نے کہا کہ پیوٹن ایک شہر پر قبضہ کر سکتے ہیں لیکن وہ کبھی بھی ملک پر قبضہ نہیں کر سکیں گے۔
امریکی پابندی کو ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ دونوں کی حمایت حاصل ہے حالانکہ اقتصادی ماہرین تیل کی قیمتیں پہلے ہی 120ڈالر فی بیرل سے بڑھنے پر دو مختلف آرا رکھتے ہیں۔
منگل کو بائیڈن کے اس اعلان کے بعد برنٹ کروڈ کا ریٹ پانچ فیصد سے زائد بڑھ گیا۔
امریکی اسپیکر نینسی پیلوسی نے اتوار کے روز ارکان کو بتایا کہ ایوان اس پابندی کے ساتھ ساتھ روس اور بیلاروس کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم اور عالمی تجارتی تنظیم تک روس کی رسائی روکنے پر زور دے رہا ہے۔
لیکن کانگریس کی نسبت روس کے لیے نسبتاً نرم رویہ اختیار کرنے والے جو بائیڈن نے ذاتی طور پر مداخلت کی اور نینسی پیلوسی کو فون کرکے اس اقدام سے روک دیا۔
مزید پڑھیں: یوکرین کے لڑائی بند کرنے تک جنگ ختم نہیں ہوگی، روسی صدر
پیلوسی نے بائیڈن کے خطاب کے بعد ساتھیوں کو جاری کردہ ایک خط میں کہا کہ ایوان میں ڈیموکریٹس دن کے اختتام سے قبل پابندی اور روسی معیشت کو نشانہ بنانے کے حامل دیگر اقدامات پر ووٹ کریں گے۔
سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے اتوار کو انکشاف کیا کہ امریکی انتظامیہ اور اس کے اتحادی پہلے ہی اس بارے میں بات چیت کر رہے ہیں کہ آیا پابندیوں پر عمل درآمد کیا جائے یا نہیں۔
انہوں نے این بی سی کو بتایا کہ اب ہم اپنے یورپی شراکت داروں کے ساتھ مل کر روسی تیل کی درآمد پر پابندی لگانے کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر تیل کی مسلسل سپلائی کو برقرار رکھا جا رہا ہے۔
البتہ امریکا کی نسبت روسی توانائی پر حد درجہ انحصار کرنے والے یورپی یونین کے ممالک نے اس طرز کی کارروائی سے انکار کر دیا ہے۔
تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی امریکی درآمدات میں روس کا حصہ آٹھ فیصد ہے جس کا مطلب ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت پر پڑنے والے اثرات کو برداشت کرنا آسان ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: روس، یوکرین میں جان بوجھ کر شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے، انٹونی بلنکن
اس کے باوجود وائٹ ہاؤس کو پہلے سے پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں ہوئئے ووٹرز کو تیل کی قیمتوں کے حوالے سے یقین دہانی کرانی ہو گی۔
امریکی اب اوسطاً 4.17 ڈالر فی گیلن ادا کر رہے ہیں اور صرف ایک ماہ میں اس قیمت میں 72 فیصد اضافہ ہوا ہے اور 2008 کی عالمی اقتصادی بدحالی کے بعد سب سے زیادہ قیمت ہے۔
امریکی حکام روسی تیل کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے مبینہ طور پر گزشتہ ہفتے کے آخر میں نکولس مادورو کی حکومت سے ملاقات کے لیے وینزویلا گئے تھے۔
جنوبی امریکی ملک کبھی امریکی میں تیل کا سب سے بڑا ذریعہ تھا لیکن امریکی نے پابندیاں عائد کر کے 2019 میں درآمدات روک دی تھی۔
مزید پڑھیں: یوکرین کا 'معلومات کی جنگ' میں روس پر غلبہ
دوسری جانب برطانیہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا اطلاق روسی قدرتی گیس پر نہیں ہوتا، جو برطانیہ کو حاصل ہونے والی چار فیصد گیس سپلائی کرتا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں