• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

نیب کی غیرفعال عدالتیں سرکاری خزانے پر بوجھ بن گئیں

شائع March 8, 2022
وفاقی حکومت نے کیسز کا بوجھ کم کرنے کے لیے 6 نئی احتساب عدالتیں قائم کی تھیں —فائل فوٹو:ریڈیو پاکستان
وفاقی حکومت نے کیسز کا بوجھ کم کرنے کے لیے 6 نئی احتساب عدالتیں قائم کی تھیں —فائل فوٹو:ریڈیو پاکستان

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے انسداد بدعنوانی کی جارحانہ مہم کے بعد مقدمات میں ممکنہ اضافے کے پیش نظر کراچی میں قائم کی جانے والی 6 نئی احتساب عدالتوں میں سے 5 قومی خزانے پر بوجھ بنتی دکھائی دے رہی ہیں، کیونکہ یہ عدالتیں ججوں کی تعیناتی نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ کئی ماہ سے غیر فعال ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل شہر میں موجود 4 احتساب عدالتیں، جنہیں نیب کورٹس بھی کہا جاتا ہے سندھ حکومت کی بیرکوں میں کام کر رہی تھیں جن پر مقدمات کا بوجھ زیادہ تھا۔

عدالتی اور استغاثہ کے ذرائع نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی حکومت نے چھ ماہ قبل کراچی میں چھ اضافی عدالتیں قائم کی تھیں تاکہ موجودہ چار عدالتوں کے ججوں پر کام کا بوجھ کم کیا جا سکے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ نئی عدالتیں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کی تعمیل میں قائم کی گئی تھیں، سپریم کورٹ نے ایک ملزم کی درخواست ضمانت کی سماعت کرتے ہوئے احتساب عدالتوں میں مقدمات کی سماعت میں تاخیر کا نوٹس لیا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کو نئی عدالتیں بنانے کی ہدایت کی تھی تاکہ موجودہ عدالتوں کے ججوں پر کام کا بوجھ کم ہو اور بدعنوانی سے متعلق مقدمات کی جلد سماعت کو یقینی بنایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے مقدمات کراچی منتقل کرنے کی آصف زرداری کی درخواست واپس کردی

وفاقی حکومت نے کلفٹن میں میونسپل ٹریننگ اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے احاطے میں چھ نئی عدالتیں قائم کی تھیں جو کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی کراچی سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں منتقل کرنے کے بعد خالی پڑی تھیں۔

حکام نے مزید بتایا کہ حکومت نے ججوں کی تنخواہوں، عملے اور دیگر اخراجات وغیرہ کی مد میں ایک کروڑ روپے سے زائد کے فنڈز بھی مختص کیے ہیں۔

ایک عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی حکومت نے وزارت قانون و انصاف کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ سے درخواست کی تھی کہ جوڈیشل افسران کو پریزائیڈنگ افسران کی تقرری کے لیے نامزد کیا جائے تاکہ نئی قائم ہونے والی احتساب عدالتوں میں خالی اسامیوں کو پُر کیا جاسکے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے نئی عدالتوں میں تقرر کے لیے چھ جوڈیشل افسران کو وفاقی وزارت قانون و انصاف میں نامزد کیا تھا، لیکن وزارت قانون نے صرف ایک پریزائیڈنگ افسر کو ایک نئی احتساب عدالت میں میں تعینات کیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پانچ دیگر عدالتیں پریزائیڈنگ افسران کی تقرری نہ ہونے کے باعث ابھی تک خالی ہیں جبکہ دیگر عدالتی عملہ تعینات ہے اور بغیر کوئی کام کیے ہر ماہ تنخواہیں وصول کر رہا ہے۔

کام کا بوجھ

عدالتی ذرائع نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ چار عدالتوں میں سے احتساب عدالت کی جج ڈاکٹر شیر بانو کریم بھی رواں سال جنوری میں ریٹائر ہوگئیں جس کے بعد اس وقت صرف تین احتساب عدالتیں کام کر رہی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حال ہی میں حکومت نے 'اے سی 3' کا اضافی چارج 'اے سی 4' کو دینے کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا، اس عدالت میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی اور ان کے خاندان کے افراد اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے چیئرمین مصطفیٰ کمال اور دیگر کے خلاف ہائی پروفائل کیسز زیر التوا ہیں۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری کی مقدمات کو کراچی منتقل کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواستیں

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کرپشن، بدعنوانی اور بڑے پیمانے پر عوام کو دھوکا دینے سے متعلق تقریباً 169 ریفرنسز تینوں فعال عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔

عدالتی اور استغاثہ کے حکام نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی انسداد بدعنوانی ادارے کی جانب سے چند سال قبل سیاستدانوں، سرکاری افسران اور نجی افراد بالخصوص بلڈرز اور ڈویلپرز کے خلاف جارحانہ مہم شروع کرنے کے بعد عدالتوں پر کام کا بوجھ تقریباً دوگنا ہو گیا ہے۔

تاہم قومی احتساب آرڈیننس 1999 میں ترامیم کے بعد وفاقی حکومت نے کیسز کی کچھ کیٹیگریز کو نیب کے دائرہ کار سے خارج کر دیا جس کے باعث اس طرح کے ریفرنسز کی تعداد بڑھنا بند ہوگئی۔

زیر التوا کیسز کا بوجھ

ذرائع کا اندازہ ہے کہ احتساب عدالت (1) کے پاس 2021 کے آخر تک 40 ریفرنسز زیر سماعت تھے جس کے دوران اس نے ترمیم شدہ قانون کی منظوری کے بعد تقریباً 190 ملزمان کی ضمانتیں منظور کیں۔

احتساب عدالت (2) کے پاس تقریباً 48 ریفرنسز زیر سماعت تھے جبکہ اس نے 2021 میں تقریباً 40 مشتبہ افراد کو ضمانت دی تھی۔

احتساب عدالت (3) کے پاس 2021 کے آخر تک تقریباً 40 ریفرنسز زیر سماعت تھے۔

احتساب عدالت (4) کے پاس تقریباً 41 ریفرنسز زیر سماعت تھے جبکہ اس نے گزشتہ سال تقریباً 48 مشتبہ افراد کو ضمانت دی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024